کراچی: بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف مظاہرہ

124

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پریس کلب کے سامنے بلوچ یکجتی کمیٹی کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے خلاف اور اسلام آباد میں احتجاج پر بیٹھے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کے طور پر علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کی گئی اور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

کمیپ میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد کے علاوہ لاپتہ طالب علم رہنماء شبیر بلوچ کی اہلیہ زرینہ بلوچ، لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی مہلب بلوچ اور انسانی حقوق کے لاپتہ کے کارکن راشد حسین کے لواحقین جبکہ بلوچ متحدہ محاذ کے یوسف مستی خان، خرم علی، وہاب بلوچ سمیت کراچی سے تعلق رکھنے والے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔

علامتی بھوک ہڑتالی کمیپ میں شریک مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں گذشتہ سات روز سے سراپا احتجاج بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی رویہ قابل مذمت اور جمہوریت کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی لاچار ماؤں کے سر پر دست شفقت رکھنے کے بجائے ان بوڑھی والدین پر الزامات لگائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نفرت سے ملک محفوظ نہیں تباہ ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سالوں سے سراپا احتجاج لواحقین کو اتنا بتایا جائے کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا ان کو مار دیا گیا ہے۔

ہاتھوں میں پلے کارڈز، بینرز اور لاپتہ افراد کی تصویریں اٹھائے مظاہرین نے کہا کہ بلوچستان پر اگر ریاست کی یہی پالیسی رہی تو یہ ریاست کے لیے باعث شرم ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کیلئے ان کے لواحقین یا ان سے اظہار یکجہتی کرنے والوں کا مطالبہ سادہ ہے کہ جو لوگ رات کی تاریکیوں یا دن کی روشنی میں فورسز نے اٹھا کر سالوں سے لاپتہ کیے ہیں اگر وہ مجرم ہیں تو ان کو اپنے بنائے ہوئے عدالتوں میں پیش کرکے سزا دی جائے۔

اظہار یکجہتی کے طور پر قائم علامتی بھوک ہڑتالی کمیپ اور مظاہرے میں شریک لاپتہ افراد کے لواحقین نے موجودہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے گذشتہ وعدوں کو پورا کرے۔