میں حسیبہ ہوں
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
میں اُس سرزمین کی بیٹی ہوں، جہاں ہوا کے دوش پر سوار گواڑخوں کی خوشبو جب کسی وطن زادی کے سامنے سے گذرتی ہے تو ادب سے نظریں جھکادیتی ہے۔ میں اس قوم کی بیٹی ہوں، جہاں سو سالہ خونریز جنگیں بھی ایک وطن زادی کی بیچ میں آنے سے روک دی جاتی ہیں اور احترام میں خون آلود تلواریں دوبارہ میانوں میں ڈالی جاتی ہیں۔ میں اس چمن کی بیٹی ہوں، جہاں کے غزال اپنی اچھل اور گرگ اپنی اکڑ وطن زادیوں کو دیکھ کر تقدیس میں گھٹا دیتی ہیں۔ میں “مَست” کی شاعری اور “چاکر” کی “بانڑی” ہوں۔ میں اس وطن کی بیٹی ہوں، جسکی آزادی و آبرو کیلئے ” اسلم” قربان ہوتے ہیں اور نوجوان “ریحان” ہوتے ہیں۔ میں اسی زمین کی بیٹی، میں بلوچستان ہوں، میں حسیبہ ہوں۔
لیکن تم نے ناصرف ان وطن زادیوں کا آشیانہ چھین لیا بلکہ ان گھر و گِدان کی گودیوں کو سڑکوں اور چوراہوں پر لے آئے، وہ مسکراہٹ جس سے میرے زمین کے “ہَتم” کے پہلے پھول کھلتے تھے، وہ چھِین کر تم نے آنکھوں میں آنسووں کا ایسا سَیلِ رواں دے دیا ہے کہ جو غور سے دیکھو تو تمہارے “ڈی چوک” پر بیٹھے چھٹا دریا بہا گئے۔ وہ وطن زادیاں جنکی حلق سے نکلی “ہالو” میرے اونچے پہاڑوں میں دور تک گونجتی تھیں، اب انکے گلو سے بس نالے و آہیں نکلتے ہیں۔ ایسا سماج جہاں باپ بھائی گھنے شجر اور بہن بیٹیاں پانی بن کر ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو زندہ رکھتی ہیں، تم ہمارے سائے دار شجر اکھاڑ کر لے گئے۔ اب ہم اپنے سائیوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے خود سائے بن گئے ہیں۔ جو روز تمہارے بیچوں گذرتے، فریاد کرتے، پکارتے ہیں لیکن کسی کو سنائی و دکھائی نہیں دیتے۔ میں بھی انہی وطن زادیوں، انہی سائیوں میں سے ایک حسیبہ ہوں۔
میں حسیبہ ہوں، میں بلوچستان کی بیٹی ہوں، میں ہر بلوچ کی بیٹی ہوں، میں اس سرزمین کی بیٹی ہوں، جس سرزمین کی خوبصورتی و اہمیت، ساحل و وسائل اور خاک کی عظمت و وفاداری مجھ سے میرا بھائی چھین کر لاپتہ کرنے کا باعث بنی۔ صرف میرے بھائی ہی نہیں بلکہ میرے ہزاروں دوسرے بھائیوں و بزرگوں کو بھی مجھ سے چھین لیا گیا ہے۔ آج وہ بھی میرے بھائی کی طرح لاپتہ ہیں، پتہ نہیں کس حال میں ہیں؟ زندہ ہیں تو کس طرح زندہ ہیں، کس حال میں ہیں، کہاں پر ہیں؟ اگر انہیں شہید کیا گیا ہے تو انکی قبریں کہاں ہیں؟ بحیثیت مسلمان ان کے جنازے کس نے پڑھائے؟ کہاں ہوا فاتحہ خوانی؟
اگر قبر نہیں، جنازہ نہیں، کفن نہیں تو ظالموں، جابروں، وقت کے فرعونوں، مجھے اور مجھ حسیبہت دیگر ہزاروں بہنوں، ماوں، بچوں کو یہ تو بتا دو کہ ہمارے پیاروں کی ہڈیاں، کپڑوں کے ٹکڑے، جوتے کہاں پر پڑے ہیں؟ کس جنگل میں، کس جھاڑی میں، کس صحرا میں، کس توتک میں، کس مرگاپ میں وہ دفن ہیں تاکہ ہم وہاں جاکر اپنی ہاتھوں کی کھدال سے مٹی خود ہٹا کر، اپنے پیاروں کی ہڈیوں، کپڑوں اور جوتوں کے ٹکڑوں کو اٹھا کر اپنی آنکھوں پر رکھ کر بوسہ دے سکیں۔
اتنا تو ہمیں بتادو، کیوں نہیں بتاتے ہمیں؟ ہمیں نہیں چاہیے آپکی ترقی، آپ سے اسکول، کالج، تعلیم، روزگار، سڑک، گیس، بجلی بھی نہیں مانگتے ہیں۔ کہتے ہیں جنگ میں رحم نہیں ہوتا، عیوض نہیں ہوتا، سب جائز ہوتا ہے۔ اسی لیئے آپ سے بہت بڑی امیدیں اور توقعات بھی نہیں، محض ایک درخواست لیئے پھررہے ہیں کہ اگر آپ نے مارا ہے تو انگلی اٹھا اس گمنام قبر کی طرف اشارہ کردیں، جہاں آپ نے ہمارے اپنوں کو دفنایا ہے، تاکہ ایک بار اس خاک کی خوشبو سے اپنے روح کو معطر کرلیں، اس خاک سے اپنی آنکھیں سرمہ کرلیں اور چٹکی بھر اٹھاکر پوٹلی میں باندھ کر اپنے گلے میں تعویذ کرلیں، پھر ہمارے جسم، روح اور خواب آزاد ہوجائیں۔ اور وہ تعویذ ہم نسل در نسل طوق کی طرح تب تک گلے میں باندھتے پھریں، جب تک ہم ان تمام گمنام قبروں پر آزادی کے ساتھ کتبے لگانے کے قابل نہیں ہوجاتے۔
سنو! ہم اُس وطن کی بچیاں ہیں، جسکے کانٹے ہمارے پیروں تک میں احترام میں نہیں چھبتے، جسکے پتھر ہمیں دیکھ کر نرم پڑجاتے ہیں، جسکا سورج سر چڑھا ہو بھی تو ہمیں دیکھ آنکھیں نیچے کرلیتا ہے، ہم رات نکلیں، ماہیکانی ہماری راہیں منور کرتی ہے۔ ہمارے بِن مانگے، جس کے پِیڑ پھل پھینکے۔ کیونکہ ہم ہزاروں سال کے آشنا ہیں، لیکن تم آئے اور اب وطن کی بچیاں سالوں سے پریس کلبوں و سڑکوں پر زندگی مانگتی پھر رہی ہیں، تلاشتی پھر رہی ہیں۔ ہم تمہارے شہرِ اقتدار بھی آئے، وہ شہر جہاں سب جم غفیر جمع کرکے کرسی کی تلاش میں آتے ہیں۔ ہم آنسو و درد جمع کرکے زندگی کی تلاش میں آئے، ایک جواب کی تلاش میں آئے۔
زندگی، اپنے پیاروں کی زندگی کی سراغ کی تلاش میں، صرف اتنا بتادو کہ جس بھائی نے مجھے جب پہلی بار سینے سے لگایا تھا اور میں نے کان لگا کر اسکے دھڑکنوں کی تھاپ سنی تھی، کیا وہ تھاپ اسکے سینے میں اب تک رقصاں ہے؟ وہ جب خاموشی سے مطالعہ کرتا، اور میں پاس بیٹھے اسکے سانسوں کی جو ڈوری گنتی تھی، کیا وہ سانسوں کی مالا اب تک جپتا ہے؟ وہ جو رات کو گھر آکر، مسکرا کر دیکھتا، دانت تو تم نے توڑ دیئے ہوگے، لیکن کیا ابتک کبھی شفق کے وقت اسکے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ سجتا ہے؟ سَر کے بال تو نوچ لیئے ہوگے تم نے، لیکن کیا اسکے چہرے پر اب بھی داڑھی اسی طرح جچتا ہے؟ رلایا تو بہت ہوا ہوگا تم نے لیکن کیا وہ ہمیں یاد کرکے تنہائی میں کبھی وہ ہنستا ہے؟ میں سالوں کا عذاب معاف کردونگی، بس زندگی کا ایک تو نشانی دے دو۔
اگر تم زندگی کی نشانی نہیں دے سکتے، کم از کم موت کا ہی ثبوت دے دو، میں اپنے آنسو، درد اور بھاہیوں کے تصویروں کے ساتھ اپنے دوپٹے میں مضبوطی سے باندھ کر شال میں وہیں، گہرا کھڈا کھود کر دفنادوں گی جہاں سے تم نے میرے بھاہیوں کو اٹھایا تھا، اگر تم مرنے کا ہی ثبوت دے دو۔ کم از کم یہ تو بتادو، جب اسکی آخری سانسیں اکھڑ رہی تھیں تو وہ کسے یاد کررہا تھا؟ آخری نام اسکے ہونٹوں سے کس کا نکلا تھا؟ جب تم اس پر تشدد کرتے، نیم بیہوشی کی حالت میں کراہتے ہوئے وہ مدد کیلئے کسے پکارتا؟
چلو اتنا بھی نہیں کرسکتے، نا زندگی کا پتہ دے سکتے ہو اور نا ہی موت کا سراغ، پھر ایک آخری احسان کرلو۔ ہمارے جو ہزاروں پیر و ورنا جو تم لے گئے، سب کے نام لکھ لینا، وِرد کرنا اور یاد رکھنا اور کبھی نہیں بھولنا۔ کیونکہ انکے نام نا میں بھولوں گی، نا اس زمین کے کوہ و گواڑخ، نا گُرگ و غزال، نا پتھر و کانٹے، نا ہی ” مست” و ” بانڑی” اور نا ہی ہمارا سورج اور نا ہی اس وطن کے ” اسلم” و ” ریحان”۔ وطن زادیوں نے انکے ہزار سالہ آشنائی کا مہر دیکھا، اور تم قہر دیکھو گے۔
بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں