مہلب دین بلوچ ایک مشعل راہ – دوستین کھوسہ

185

مہلب دین بلوچ ایک مشعل راہ

تحریر: دوستین کھوسہ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ میں جب بھی کوئی نوآبادکار کسی مظلوم کی سرزمین پر قبضہ کرتا ہے تو وہ وہاں کے مقامی باشندوں پر ہر قسم کے مظالم ڈھاتا ہے ، اس کو صرف اور صرف اس سرزمین کے ساحل اور وسائل اور زمین سے غرض ہوتی ہے۔ وہ نسل کشی بھی کر تا ہے، وہ جبری گمشدگی بھی کرتا ہے،وہ اجتماعی قبریں بھی دیتا ہے، وہ مقامی باشندوں کی تہذیب و ثقافت اور زبان کو بھی مسخ کرتاہے، وہ مقامی لوگوں کو آپس میں لڑواتا بھی ہے، وہ مقامی لوگوں میں اپنے پالتو بھی پیدا کرتاہے، وہ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربے بھی کرتا ہے۔ المختصر وہ اس سرزمین کو مقامی لوگوں کے لیے ایک قصاب خانہ بناتا ہے ، وہ یہ سب تب تک کرتا ہے جب تک اسکو مار کے بھگایا نہ جائے۔ اس کے تشدد کا جواب تشدد سے نہ دیا جائے۔ جب تک اس کے خلاف عملی مصلح مزاحمت نہ کی جائے۔

اس مزاحمت اور جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے معاشرے کے تمام شعبوں اور تمام عمروں سے تعلق رکھنے والے مرد ، عورت، بوڑھے ، بچے سب کا کردار لازم و ملزوم ہوتا ہے۔

اب اگر بلوچ سرزمین پر پاکستان کی جانب سے کیے گئے جبری قبضے اور بلوچ مزاحمتی تاریخ کو دیکھا جائے تو بلوچ مزاحمت آج اس اسٹیج پر آچکی ہے، جہاں بلوچ نوجوان اگر جنگی محاذ سنبھالے ہوئے ہیں تو بلوچ بیٹیاں سیاسی محاذ سنبھالے ہزاروں مصیبتیں ، دکھ ، پریشانیاں جھیل رہی ہیں اور میرے جیسے ہزاروں بےضمیر نوجوانوں کے ضمیر جنجھوڑ نے کی کوشش کر رہی ہیں جن کی بلوچیت صرف 2 مارچ کو جاگتی ہے۔

ڈاکٹر دین محمد بلوچ صاحب جن کا تعلق مشکے سے ہے ان کو 28 جون 2008 کو خضدار کے ایک سرکاری ہسپتال کی سرکاری ڈیوٹی کے دوران مسلح افراد لاپتہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جوکہ انسانیت دوست ، قوم دوست اور فرض شناس بلوچ ڈاکٹر تھے، جنہوں نے کبھی پرائیوٹ کلینک میں چک اپ نہیں کیا تھا اور نہ ہی کبھی اپنے اہل خانہ کے لیے سرکاری دوائی استعمال کی ، جب بھی ضرورت ہوتی میڈیکل سٹور سے خرید کے لیتے تھے۔

مہلب بلوچ بتاتی ہیں ان کے بابا بو لتے تھے اگر میں اپنے مریضوں کا خیال نہیں رکھوں گا تو کون رکھے گا۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ ایک سیاسی ورکر تھے اور ان کا تعلق بلوچ نیشنل موومنٹ سے تھا، جو تب تک بین نہیں ہوئی تھی اور جب بات شعور دینے اور سیاست کرنے کی آجاۓ تو نوآبادکار کی جان پہ بن آتی ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک انہوں نے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 12 سال سے لاپتہ کیا ہوا ہے۔

ان کی بیٹی مہلب بلوچ جو اس وقت 9 سال کی بالکل معصوم بچی تھی جس نے ابھی اپنے بابا کو جی بھر کر دیکھا بھی نہیں تھا ان سے ان کے بابا کا سایہ شفقت چھین لیاگیا۔ اگر اس کے بابا کو لاپتہ نہ کیا جاتا تو آ ج مہلب بھی اپنے خوابوں کے ساتھ سکون کی زندگی گزار رہی ہوتی۔

مہلب جب چھوٹی ہوتی تھی تو اپنے بابا کو بولتی تھی جب وہ اخبار پڑھا کرتے تھے کہ بابا اس میں آپ کی تصویر کب آئی گی تو اس کے بابا مسکرا کے بولتے تھے آجائیگی بیٹا کبھی۔ شاید مہلب کو معلوم نہیں تھا وہ بابا سے کس چیز کا مطالبہ کر رہی ہے۔

بابا کے لاپتہ ہونے کے بعد مہلب دین بلوچ کا بچپن ماما قدیر بلوچ کے لاپتہ افراد کے کیمپ میں گزرا ، گویا بابا کے بعد ماما قدیر نے ان کی پرورش اور سیاسی تربیت کی۔ وقت گزرتا چلا گیا بلوچستان میں دیکھتے ہی دیکھتے لاپتہ افراد کی تعداد سینکڑوں سے 30 ہزار تک جا پہنچی۔ اس کے ساتھ ساتھ نوآبادکار کے مظالم بھی بڑھتے گئے اور اجتماعی قبریں بھی دریافت ہونے لگیں ، گولیوں سے چھلنی اور ڈرل مشین لگی لاشیں بھی ملنے لگیں، مگر ڈاکٹر دین محمد بلوچ اور بلوچ وطن کی اس بہادر بیٹی نے کبھی ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا۔

یہ ایک دن کی بات نہیں تھی ، ایک ہفتے کی بات نہیں تھی ، ایک مہینے کی بات نہیں تھی ، ایک سال کی بات نہیں ، ایک دہائی سے زیادہ کی بات ہے۔ وہ کبھی کوئٹہ پریس کلب پریس کانفرنس کرتے نظر آئیں تو کبھی کراچی تو کبھی اسلام آباد پریس کلب تاکہ ان کے پاکستان کے مظالم کو انہی کے میڈیا کے سامنے بیان کیا جا سکے مگر نوآبادکار کو کبھی مظلوم کی فریاد سے سروکار نہیں ہوتا۔ مہلب نے ماما قدیر کے ساتھ کوئٹہ سے اسلام آباد کا طویل، مشکل اور مصیبتوں بھرا لانگ مارچ سسکتی آنسو، فریاد بھری نگاہوں اور مضبوط حوصلہ کے ساتھ کیا۔

وہ پاکستانی پارلیمنٹ ، پاکستانی سپریم کورٹ ، پاکستانی ہائی کورٹ کی درجنوں پیشیاں بگھتتی رہیں، مگر اس ظالم پاکستان کو ترس نہیں آیا۔وہ روز لاپتہ افراد کے کیمپس میں آتی ہیں کہ شاید کسی انسانی حقوق کے ادارے کے افراد اسے اس کے بابا سے ملا سکیں اور کبھی دوسرے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو حوصلے دیتی نظر آتی ہیں۔ چیرمین زاہد بلوچ کو جب لاپتہ کیا جاتاہے تو وہ آواز بلند کرتی نظر آتی ہیں۔ برمش جیسے انسانیت سوز واقعے کے خلاف مہلب بلوچ سب سے پیش پیش رہیں۔

جب حیات بلوچ کو شہید کیا جاتا ہے تو مہلب دین محمد بلوچ کراچی سے کوئٹہ تک احتجاج اور جلسے جلوس اور تقاریر کرتی نظر آتی ہے۔ جب کوئٹہ میں بولان میڈیکل کالج کے بلوچ طالب علم آن لائن کلاسس اور انٹرنیٹ کی بندش کے خلاف احتجاج کر رہے ہوتے ہیں اور جب ان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو مہلب بھی ان میں شامل ہوتی ہیں۔

جب بلوچستان یونیورسٹی کے براہوی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ پروفیسر لیاقت سنی بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاتاہے وہ ان کی آواز بنتی ہیں۔

حسیبہ قمبرانی جب اپنے لاپتہ بھائیوں کی آواز بنتی ہیں تو مہلب کی آواز ان کے ساتھ شامل ہوتی ہیں۔

جب لمہ وطن بانک کریمہ کو کینڈا میں شہید کیا جاتاہے تو مہلب بلوچ ہر احتجاج میں اس ظلم اور ظالم کو للکارتی نظر آئیں۔

وہ اپنے بابا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلوچ سرزمین کے ساتھ اسی طرح وفا نبھا رہی ہیں جیسے ان کے بابا 12 سال سے مٹی کی محبت اور وفا نبھا رہے ہیں۔ بابا کی جدائی کے بارہ سال کسی بھی انسان کا کلیجہ چیر اور تھکا دینے والے اور شکست دینے والے ہوتی ہیں مگر مہلب دین محمد بلوچ نے ہر آ زمائش کا جس جرات مندانہ انداز میں سامنا کیا ہے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ مہلب بلوچ آج صرف اپنے بابا ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی ہی آواز نہیں بلکہ بلوچ قوم کے حقوق کی آواز بن چکیں ہیں۔

مہلب ہر بلوچ خاتون کے لیے ایک مشعل راہ ہیں اور ہر بلوچ بیٹی کے لیے حوصلے کا زریعہ ہیں جس کے بھائی ، بابا ، بہن ، ماں قابض ریاست کے ہاتھوں لاپتہ ہو چکا ہو اور بلوچ سنگت کے لیے حوصلے کا زریعہ ہیں جو اپنی زندگیاں، جوانیاں ، توانیاں ، خاندان ، اولاد اس جہد آزادی میں قربان کررہے ہیں۔

مہلب دین محمد بلوچ بلوچستان ہے مہلب دین محمد مسسل جدوجہد اور مزاحمت نام ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں