مکیش کے گم ہونے پر سندھ کیوں بے خبر تھا؟
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
روسی ناول نگار آندریف کا ناول”پھانسی“ کا ابتدائیہ ایسے شروع ہوتا ہے کہ
”ملزم،مجرم،یا کسی سازش کا شکار معصوم انسان تو پھانسی چڑھ ہی جاتا ہےپر منصف اندھے ہو تے ہیں وہ نہیں دیکھ پا تے کہ اس ایک پھانسی میں ایک شخص رسی پر نہیں جھول رہا ہوتا!
ویسے پھانسی لگے شخص کے ساتھ پورا خاندان پھانسی پر جھول جاتا ہے
پر اس پھانسی پر مجرم،ملزم،یا سازش کے تحت آئے انسان سے پہلے جو پھانسی پر جھولنے لگتا ہے
وہ ماں ہو تی ہے
وہ مجرم سے پہلے بھی پھانسی پر جھول رہی ہو تی ہے
اور مجرم کے پھانسی پر چڑھ جانے پر
زندگی بھر پھانسی پر جھولتی رہتی ہے
زندگی بھر
تا ابد“
اور اس ناول”پھانسی کا اختتام ایسے الفاظ پر ہوتا ہے کہ
”جب تانیا کو پھانسی دے دی گئی تو پیچھے کیا رہ گیا تھا
بجھا ہوا لالٹین
سخت سردی میں بھونکتے کتے
سخت سردی میں کانپتا جلاد!
برف میں تانیا کے پیروں کے نشان
اور اک پیر سے گر جانے والا جوتا!
اور گھر میں وہ ماں
جو تانیا سے پہلے پھانسی گھاٹ پر پھانسی چڑھ چکی
اور تانیا کے پھانسی چڑھ جانے کے بعد بھی پھانسی گھاٹ پر جھولتی رہیگی
زندگی بھر
تا ابد!“
جو کچھ روسی ناول نگار آندریف نے ”پھانسی“ میں بیان کیا ہے وہی کچھ مکیش کمار ساگر اور اس کی ماں کے ساتھ پیش آیا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مکیش کمار ساگر کی کہانی کے پلاٹ کو لیکر سندھی دانشور ایسا ہی ناول لکھتے جیسا آندریف نے لکھا پر ناول کیا ان سندھی دانشوروں نے تو اخباری پنوں پر مکیش اور اس کی ماں کے لیے اک کالم بھی نہیں لکھا جس خاموشی سے مکیش کمار گم ہوا تھا اتنی ہی پر اسراریت سے وہ واپس آگیا۔ نہ اس گم ہونے کا سندھ کو معلوم تھا اور نہ اس کے بازیاب ہونے پر سندھ کو معلوم ہو سکا کیونکہ وہ ایک تو غریب مزدور ہے،دوسرا سندھی ہے اور تیسرا ہندو ہے۔
مکیش کے بھی وہی گناہ ہیں جو گناہ کسی زمانے میں سوبھو گیان چندانی کے ہوا کرتے تھے
کمیونسٹ
سندھی
ہندو
حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج سے پینتالیس دن پہلے جب مکیش پی ٹی ایم کی قیا دت کے سروں پر سندھی ٹوپی اور کاندھوں پراجرک سجائے سہراب گوٹھ سے واپس ہوا تو وہ وہاں پہنچا ہی نہیں جہاں اسے جانا تھا،وہ وہاں پہنچا دیا گیا جہاں دیس دروہیوں کو دھر لیا جاتا ہے اور ان سے وہ کچھ پوچھا جاتا ہے جو انہوں نے خواب میں بھی نہیں کیا ہوتا،مکیش اذیت خانے میں پہنچا دیا گیا اور سندھ بے خبر رہا
سندھ کیوں بے خبر رہا؟
اس لیے کہ سندھ کی دانش بے خبر رہی
سندھ کی میڈیا بے خبر رہی
سندھ کا شعور بے خبر رہا
جب،دانش،میڈیا اور شعور بے خبر رہے تو سندھ کیوں کر جان پائے کہ چھوٹے سے جسم اور بڑے دل والا مکیش کون تھا؟بھو ری آنکھوں اور سیاہ بالوں والوں مکیش کون تھا؟تھر کی ریت جیسا موروں کی بولی جیسا مکیش کون تھا؟تھر کے پیروں جیسا اور کارونجھر کی کور جیسا میکش کون تھا؟چونرے کی چھاؤں جیسا اور کنوؤں کی گھیرائی جیسا مکیش کون تھا؟سندھ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ مکیش کون تھا اور کہاں گیا؟
پر جیسے آندریف نے لکھا کہ پھانسی گھاٹ پر ملزم،مجرم سے پہلے اور بعد میں ان کی مائیں ہی پھانسی گھاٹ پر چڑھتی ہیں،تو مکیش کی ماں کے ساتھ بھی یہی ہوا
جب سندھ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ کراچی کے سہراب گوٹھ کے آس پاس کون کب اور کیوں گم ہوا ہے؟
تو کراچی سے بہت دور تھر کے صحرا میں جو سب سے پہلے پھانسی گھاٹ پر چڑھی تھی اور اب مکیش کے لوٹ آنے پر پھانسی گھاٹ سے اتری ہے وہ اس کی ماں ہے!
وہ ماں تھر میں مورنی کی طرح بے چین تھی
وہ ماں چونرے میں اداس رہا کرتی
وہ ماں کارونجھر کو رو رو کر کہتی ہے سندھ میری بات نہیں سنتا
اے گلابی سائیں تو ہی میری بات سن
وہ جو بہت رو تی
وہ جو آنکھوں سے نیر بھاتی
وہ جو دن تو کیا پر رات میں بھی گیتا کا پاٹ کرتی
وہ جو سوئی نہیں وہ جو بہت روئی ہے
وہ جس کی حالت ایسی ہو گئی تھی جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”ویو وسکا رے میں مور مری
تھی کیڈیون دانھون ڈیل کرے!“
وہ جو کراچی جانے کی ضد کرتی
وہ جو اپنے خاوند سے کہتی
”چلو کراچی میں میکش کو ڈھونڈتے ہیں ابھی انسانوں میں انسانیت ہے وہ ہمیں اپنے میکش کا پتا بتا دیں گے!“
وہ جو ماں تھی
وہ جو دیوانی ہو رہی تھی
مکیش کراچی میں گم ہوا
اور یہ ماں سندھ کے صحرا میں پھانسی گھاٹ پر جھول رہی تھی
مکیش نے کیا کیا تھا سندھ اس سے بے خبر تھا؟
پر مکیش کی ماں سندھ کے ریت میں پھانسی گھاٹ پر منصور اور سرمد کی طرح جھول رہی تھی
سندھ اس سے بھی بے خبر تھا
کیوں کہ سندھ کا شعور
دانش
اور میڈیا جانتا ہی نہیں تھا کہ مکیش کون ہے اور اس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے
جب سندھ جانتا ہی نہیں
تو وہ اس ماں کو کیسے دیکھ پائے جو مکیش کے گم ہونے کے پہلے دن سے پھانسی گھاٹ پہنچ گئی تھی!
اب جب مکیش لوٹ آیا ہے تو سندھ جب بھی بے خبر ہے
سندھ کیوں بے خبر ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب مجھے نہیں پر اس ماں کو ضرور ملنا چاہیے
جو سندھ میں رہتی ہے
سندھی بولتی ہے
سندھی میں سوچتی ہے
اور جب درد سوا ہو جا تے ہیں
تو سندھی میں رُدالی کر تی ہے
اور بہت رو تی ہے
کاش کوئی سندھی دانشور بھی ایسا ہوتا
جب مکیش کی ماں پھانسی گھاٹ پر طویل انتظار کر رہی تھی تو وہ اس انتظار کو ایسے الفاظوں میں رقم کرتا کہ
”ماں پھانسی گھاٹ پہ جا رہی تھی
تھر میں ریت کے زرے اُڑ رہے تھے
سانپ اور بچھو یہ نظارہ دیکھ رہے تھے
سندھ اور اس میں بسنے والے انسان اس ماں سے بے خبر تھے
ماں پھانسی گھاٹ پر جھول گئی
پیچھے رہ گیا
اس کا دو پٹہ
اور ہڈی کی سفید چوڑیاں!“
بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں