موت – عدید

1045

موت

تحریر: عدید

دی بلوچستان پوسٹ

ایک سچا افسانہ اور بڑی سیدھی کہانی یہ ہے کہ موت ایک حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زندگی ایک ابدی شے ہی نہیں، اب تصور الہی کے علاوہ انسان کے پاس کچھ ایسے بھی آلے اور حالات ہیں جن کی بنیاد پر انسان تا قیامت زندہ رہ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کو نظریاتی بنیاد پر محنت کی اشد ضروت پڑجاتی ہے تاکہ اس بےنامی کی دردناک موت سےخود کو بچایا جاسکے۔

آفاقی موت ہی جگمگاتا ہوا ایک جامد کارنامہ ہے بشرطیکہ انسان دوستی، اقوام مہذب کی ایجاد اور فکری نظریات کے بنیاد پر آجائے تو در حقیقت انسان مرنے کے بعد ہی شعوری طور پر ابدی زندگی کے لیے ہی زندہ ہوجاتا ہے۔

موت دنیا میں ہرمادی شے کوفنا کردیتی ہے لیکن یہی موت ایک راہ عمل کاحصہ بن جائے تو انسان کو ایک ایسی ابدی زندگی فراہم کردیتاہے جس سے انسانی عقل فطرت کا منطقی دلیل بن جاتاہے۔

ذات انا سے منسوب تمام تر خیالات ترک کرکے وقتی خواہشات سے مبرہ کریمہ بلوچ بھی ایک ایسی ہی ہستی تھی جو قوت ارادی سے اٹل فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی، موت کا انتخاب ایک اٹل فیصلے کا محتاج ہوتا ہے کریمہ بلوچ نے یہ محتاجی اپنی زندگی سے زندگی بھر کےلیے ختم کردیا اور ایک بڑے لیڈر جیسے راستے کے تمام تر سختیوں کو برداشت کرنے میں اف تک نہیں کیا اوراپنی زرخیز پرفکر مواقف پر ڈٹے رہے اس کی سب سے بڑی خوبیوں میں سے یہ بھی ایک بڑی خوبی تھی کہ وہ وقت پر ٹھیک فیصلہ کرنے کی سکت رکھتی تھی۔

وقت پر صیحح فیصلوں کی وجہ سے آج تاریخ میں ایک تھیوریکل باب کا اضافہ کرگئی، انہوں نے بی ایس او کی مشعل کو تاریخ میں مزید بلندیوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

موجودہ دور بلوچ قوم کے آزمائشوں بشمول زیست وموت کا فلسفہ مستقبل پر انحصار کے لیے ایک تاریخ سازترقی پسندانہ ہئیت بنانے جارہی ہے، بلوچ عوام جوان مردی کے ساتھ یہ سفر طےکررہے ہیں ماضی کےبیتے دنوں میں یہ تاریخ نا نوری نصیر خان نے مرہٹوں کے خلاف مضبوط جنگی حکمت عملی سے طے کیا اور نا ہی چاکر اعظم نے ایسی تاریخ بنانے میں مقصدی کامیابی حاصل کی۔

بلوچستان کا پسماندہ علاقے تمپ سے کریمہ بلوچ جیسی نڈر خاتون کی بلوچ سیاسی محرکات کے اثرات صدیوں تک گہرائی کے ساتھ تمام خواتین سمیت مرد حضرات کے لیے ایک مثالی سبق اورتاریخی کردار ثابت ہوگا موت ایک ایسی جان لیوا عمل سے گزرنےکانام ہےجو کھبی بھی اور کسی بھی وقت کسی بھی شکل میں انسان پر مسلط ہوسکتا ہے لیکن نظریاتی معاشروں میں کچھ ایسے واحد انسان آج بھی موجود ہیں جو اپنےکرداری عمل کے ذریعے ہی اپنےموت کا انتخاب کرتےہیں اور کریمہ بلوچ ایک ایسی ہی بہادر خاتون کردار تھی کریمہ بلوچ کو صیحح طرزوں پرجاننے کےلیےکریمہ جیسی بہادری اورعلم کی ضرورت ہوتی ہے۔ تب ہی ایک انسان کو یہ پتا چل جاتاہےکہ ایک اچھا معاشرہ اور ایک بہترین تاریخ کس طرح بنایاجاسکتاہے۔

یہ کریمہ بلوچ کا نظریہ تھا جو گزشتہ کئی سالوں کی جمودی مایوسیوں کو توڑ کرحالت کو سازگار بنانے میں کامیاب ہوا بلوچ سیاست پر عالمی فارمز سمیت علاقائی سطح پر ہرعام خاص انسان لگاتار بولتا نظر آرہاہے۔ ختم ہوتی ہوئی امیدیں کریمہ بلوچ کی بہمانہ قتل سے بامعنی انسان تخلیق کرنے میں کامیاب ہوِئے شہید کا لہو کبھی رائیگاں نہیں جاتااب یہ فقرہ ایک حقیقت بن چکا ہے پھر سے زندہ ہونے کےلیے سنجیدگی سے مستقبل کی جانب سفر کا آغاز گراس روٹ سے منزل کی رواں دواں ہوچکا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں