بلوچستان میں محکمہ تعلیم کو 5 سالہ جامع منصوبہ بندی کے تحت 72 ارب روپے کی ضرورت ہوگی، محکمہ تعلیم میں مزید 6 سے 7 ہزار آسامیاں خالی ہیں، اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کیلئے سنگل سکولز میں اساتذہ کی تعداد بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ان خیالات کااظہار سیکرٹری ثانوی تعلیم شیر خان بازئی نے آن لائن سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
شیر خان بازئی نے کہا کہ بلوچستان میں 4 سے 5 ہزار سکولز ایسے ہیں جہاں ایک استاد پڑھاتا ہے جب اساتذہ ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو وہ سکول بند ہوجاتا ہے یا پھر سکول ٹیچر چھٹی پر چلا جاتا ہے پھر لوگ اس سکول کو گھوسٹ سمجھتے ہیں لیکن محکمہ تعلیم کی جانب سے اس طرح کے مسئلے کے حل کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور ایک ٹیچر کی بجائے دو اساتذہ تعینات کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
انہوں نے آن لائن کو بتایا کہ اس وقت 4 ہزار اساتذہ بھرتی کیے ہیں جن میں 30 اضلاع میں تقرری کا عمل مکمل ہوا ہے جبکہ 3 اضلاع ابھی تک پائپ لائن میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں مزید 7 ہزار آسامیاں خالی ہیں محدود فنڈز کی وجہ سے محکمہ بہت سے مسائل سے دوچار ہیں، اساتذہ کی کمی کامسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک رف اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں 12 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں 5 سالہ جامع منصوبہ بندی کے تحت محکمہ تعلیم کو 72 ارب روپے کی ضرورت ہوگی، سکولز کی چاردیواری، بیت الخلاء نہیں ہے ایسے بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کوشش کررہے ہیں۔
سیکرٹری ہائیرایجوکیشن محمد ہاشم غلزئی نے کہا کہ سی ٹی ایس پی کے 30 اضلاع سے تعلق رکھنے والے 4 ہزارہ اساتذہ میں تقرر نامے تقسیم کردیے ہیں جو ڈیڑھ سال کی مدت میں تکیمل تک پہنچے، انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں معلم کا درجہ انتہائی احترام کا ہے معاشرے میں انسان اور حیوان کا فرق صرف تعلیم اور تربیت کے ذریعے ہی ممکن ہے، حکومت نے نئے بھرتی اساتذہ کی تربیت کیلئے 10 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔