عالمی بولیوں کا دن بانک کریمہ کے نام – محمد خان داؤد

133

عالمی بولیوں کا دن بانک کریمہ کے نام

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

آج مادری بولیوں کا دن ہے اور ہم یہ دن بانک کریمہ کے نام کرتے ہیں جس پر بلوچی بولی ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ یہ اعزاز کی بات نہیں ہے کہ اسے انگریزی آتی تھی پر یہ فخر کی بات ہے کہ وہ بلوچستان سے دور بس کر بھی اس بولی کو نہیں بھولی تھی، جو اس کی اپنی بولی تھی۔جو اس کی ماں کی بولی تھی، جو اس کے دیس کی بولی تھی۔دیس سے دور بس کر بھی وہ دیس کی میٹھی بولی کے میٹھے شبد نہ بھول پائی۔جس بولی میں وہ سوچتی تھی۔جس بولی میں وہ لڑتی تھی۔جس بولی میں وہ بولتی تھی۔جس بولی میں خوش ہو تی تھی۔بھلے ہنسنے کی بولیاں تمام دنیا کی ایک ہوں اور بھلے رونے کی بولیاں تمام دنیا کے یکساں ہوں پر گیت کے بولی ایک نہیں ہو تی!وہ اپنی بولی میں گیت گاتی تھی۔وہ اپنی بولی میں تخلیق کیا کرتی تھی۔وہ اپنی بولی میں دلا سہ اور اپنی بولی میں احتجاج کیا کرتی تھی۔وہ اپنی بولی میں افسانے لکھا کرتی تھی۔وہ اپنی بولی میں نظمیں کہا کرتی تھی۔آنسوؤں کی بولی ایک ہو سکتی ہے،قہقہوں کی بولی ایک ہو سکتی ہے، دکھ کی بولی ایک ہو سکتی ہے، درد کی بولی ایک ہو سکتی ہے،ماں کو یاد کر کے ہچکیوں کا بندھ جانا ایک بولی میں ہو سکتا ہے، دیس کی دوری میں جو آنسو بہتے ہیں ان آنسوؤں کی بولی بھی ایک ہو سکتی ہے، پر جدید خط وکتابت ایک بولی میں نہیں ہو سکتی،ہاں رومن میں وہ سب کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے پر اس کا ذائقہ وہ نہیں ہوتا جو دکھتا ہے پر محسوس کرنے میں وہ،وہ بولی ہو تی ہے جسے ماں بولی کہتے ہیں۔

اس لیے بانک کریمہ نے جو جدید خط وکتابت کی ماہ گنج سے
وہ شیکسپئیر کی بولی نہ تھی۔وہ عطا شاد کی بولی تھی
وہ جمالدینی کی بولی تھی،وہ گل خان نصیر کی بولی تھی
وہ ظہور شاہ ہاشمی کی بولی تھی
وہ پہاڑوں پر مکیں دل نوازوں کی بولی تھی
وہ اسی بولی میں ماں گنج سے مخاطب ہوا کرتی تھی جس بولی میں جمیلہ بانک کریمہ کی امی اسے نظمیں سنایا کرتی تھی۔
گیتوں کی بولی
میتوں کی بولی
لوریوں کی بولی
دھرتی سے جُڑ جانے کی بولی
بلوچ سماج کو،بلوچ دھرتی کو،بلوچ دیس کو بانک کریمہ پر فخر ہے
ایسا فخر جو اس سے پہلے نہ کسی پر تھا نہ ہوگا
جیسی سیا ست بلوچستان میں رواں ہے،کوئی ”باپ“ کا ہے،کوئی ”ماں“ کا
جن کی حالت دیکھ کر بلوچ دھرتی صبح و شام پکا رتی ہے کہ
”اُن رفیقوں سے شرم آتی ہے
جو میرا ساتھ دے کہ ہا رے ہیں!“
پر کیا ان میں سے کوئی دھرتی کا بھی ہے؟
کوئی دھرتی کا بیٹا بھی ہے؟
کوئی دھرتی پر بسنے والے انسانوں کا خیر خواہ بھی ہے
کوئی ان وادیوں ان ندی نالوں کا بھی ہے جو عرصہ ہوا اداس ہیں
کوئی اس آکاش کا بھی ہے جو تھر کے صحرہ کی ماند ویران ویران ہے
کوئی اس چاند کا بھی ہے جو نکلتا ہے تو ماتم کرتا آکاش میں اُلوپ ہو جاتا ہے
کوئی اس سورج کا بھی ہے جو دیس پہ طلوع ہوتا ہے کہ کاش کسی کی نظر پڑے اور وہ دکھوں کو دیکھ پائے
کیا کوئی ان بارشوں کا بھی ہے جو ان قبروں کے کتبوں کے لکھے نمبروں کو ظاہر کر جا تی ہے جن قبروں پر کوئی نام درج نہیں ہوتا،ان قبروں کی پہچان بس نمبروں تک محدود ہے!
نہیں ان میں سے ایک بھی دھرتی کا نہیں جبھی تو ان کے لیے جون لکھ گیا تھا کہ
”اُن رفیقوں سے شرم آتی ہے
جو میرا ساتھ دے کے ہا رے ہیں!“
پر یہ تو دھرتی کا ساتھ بھی نہیں دے پائے،
پر بانک کریمہ پو ری کی پو ری دھرتی پر نثار تھی اور ہوئی۔جب وہ تھی تو دھرتی اس کے عشق سے سر شار تھی اور اب جب وہ دھرتی سے مل کر دھرتی ہوئی ہے تو دھرتی نم نم نم نم نم نم ہے۔

دوستوں کے جنازے دوست انہیں کاندھوں پر اُٹھاتے ہیں
پر عاشقوں کے جنازے آگے بڑھ کر دھرتی اپنے کاندھوں پر اُٹھالیتی ہے۔
اور عاشق بھی وہ ہو جس پر بلوچ سماج،بلوچ دھرتی،بلوچ بولی نثار ہو تو اس عاشق کے جنازے کو دھرتی نے کس شان دے کاندھا دیا ہوگا
دھرتی رو رہی ہو گی
سورج گُل ہو گیا ہوگا
چاند ماتم کرتا ایسے گزر رہا ہوگا جیسے یسوع کو صلیب دیتے وقت گزرا تھا
بارشوں نے برسنے سے انکار کیا ہوگا
شہید کی مکھی نے کئی دن اداس گزارے ہونگے اور پھولوں کا رس نے چکھا ہوگا
کونپلوں نے پھول بننے سے انکار کیا ہوگا
اوس اداس ہوکر گری ہوگی
مہ کدوں کے در بند رہے ہونگے
رندوں نے بہت رویا ہوگا
ملنگوں نے قلندر سے کہا ہوگا
”اب تو ماتم کر!“
شاعری اداس رہی ہو گی
فقیروں نے روزے رکھے ہونگے
مزاروں پر رکھے مٹکے اپنے آپ خالی ہو گئے ہونگے
مہندی کے پھولوں سے رنگ اور خوشبو اُڑ گئی ہو گی
میں نے بھی ماتم کیا ہوگا
تم نے بھی ماتم کیا ہوگا
بہت دور سرمچاروں نے اس دن کھانا نہیں پکایا
وہ ایک دوسرے سے گلے مل کر رات کے آخری پہروں تک رو تے رہے ہونگے
انہوں نے پہاڑوں کے دامنوں میں بانک کے لیے اجتما عی گیت لکھے ہونگے
جن اک دن منظر عام پہ آنا ہے
جب تک وہ گیت ہما رے کانوں میں گونجے
اور ہماری آنکھوں کو تر کر جائیں
جب تک آئیں آج کا دن
ماں بولی کا دن
کریں اس لڑکی کے نام
جو آپ بولی تھی
ماں کی بولی
میٹھی میٹھی،پیا ری پیا ری
سلام ماں جیسی بولی
بولی جیسی ماں
بانک کریمہ۔۔۔۔۔۔


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں