ضیاء تیرے تحریروں کا انتظار – امجد دھوار

420

ضیاء تیرے تحریروں کا انتظار

‎تحریر: امجد دھوار

دی بلوچستان پوسٹ

‎جب میں کوئی کتاب پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہوں تو سب سے پہلے میں اپنے قریبی دوستوں سے کتابوں کےحوالے سے دریافت کرتا ہوں کہ کون سی کتاب پڑھی جائے تا کہ اس کتاب کو پڑھ کر میں کچھ سیکھ سکوں، پچھلے دنوں جب میں نے کسی سے کسی کتاب کے حوالے سے دریافت کیا تو دوست نے مجھے میکسم گورکی کے ناول ماں کا کہا کہ اس ناول کو ضرور پڑھو خیر اگلی صبح جب میں کراچی کی فضاؤں میں سانس لینے لگا اور کتاب کی تلاش شروع کی کچھ دیر بعد کتاب مجھے مل گئی، اتفاقاً اگلی صبح مجھے گلف کنٹری کلب Golf Country Club بھی جانا تھا۔

‎ اگلی صبح کنٹری کلب کیلئے راونہ ہوئے تو یہ کتاب بھی اپنے ساتھ اٹھا لیا جب ہم اپنے منزل کو پہنچ گئے ارد گرد خاموشی تھی بالکل پاس بیٹھے گورے بھی گوادر کے حوالے سے باتیں کر رہے تھے، میری اک نظر ان پہ اور اک نظر اس کتاب پہ ٹکی ہوئی تھی، مجھے ایسا لگا کہ مجھے کچھ دور بیٹھ کر اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئیے، پاس ہی میں گراؤنڈ میں ناول پڑھنے لگا جہاں ناول کی کہانی ایک مزدور پاویل اسکے دوستوں اور پاویل کی ماں کے گرد گھومتی ہے ماں اپنے بیٹے اور اسکے مشن یعنی انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کرتی ہے اور اپنے بیٹے کی گرفتاری کے بعد خود ایک انقلابی بن جاتی ہے۔

‎اس ناول کو پڑھتے ہی میرے ذہن میں ٹک تیر دلجان کا خیال گھومنے لگا وہ دل جان جس کی صفت اک ماں مجھ سے کرتے ہوئے اشک بار ہوئی اور اپنے موبائل کی اسکرین پر رکھا گیا دل کی تصویر دکھانے لگا جہاں دلجان کے عکس میں صاف ظاہر دکھ رہا تھا کہ وہ کسی سفر سے ہو کر آیا ہوا ہے، پیاس کی وجہ سے خشک ہونٹوں کو ماں محسوس کر کے مجھے دکھا رہا تھا، آنکھوں میں آنسو ہونے کے باوجود بھی ماں مجھے تسلی دے رہی تھی دل جان سے میری ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی تھی مگر آج ماں کا حوصلہ اور جذبہ دیکھ کر مجھے دلجان کا احساس ہونے لگا کے دلجان تو واقعی ہی اس قوم کا دل و جان تھا ماں کی مہر محبت حوصلہ دیکھ کر میں دل جان کے بارے میں سوال کرتا گیا اور ماں دہیمی آواز میں مجھے جواب دیتا گیا ماں کا ہمت حوصلہ اتنا مضبوط تھا، جس کے سامنے چلتن کی بالاد اور مضبوطی شرما دے۔

‎ ماں سے سوال پہ سوال تھا دیکھتے ہی دیکھتے گھنٹوں گذر گئے ہمیں نکلنا بھی تھا اس خوبصورت محفل کو ادھورا چھوڑنا پڑا، آخر میں ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ اگلی نشست میں دلجان کو ماں کے مہر و محبت سے جاننے کی کوشش کرونگا اب ہر روز میں دلجان کو سوچتا رہتا ہوں کہ کیسا بہادر تھا ہمارا دلجان جو وطن کا ٹک تیر بھی تھا، کچھ
‎دنوں بعد جب میں نے روز کی طرح فیس بک کھولا تو سب سے پہلے پڑھنے کو یہ پوسٹ ملا

‎شہید ضیاء الرحمن عرف دلجان ٹک تیر کے تحاریر پر مشتمل کتاب “ضیاء” جلد آن لائن شائع ہوگی

‎بس اس دن سے میرے خوشی کو چار چاند لگ گئے کہ کتاب کی شکل میں مجھے ایک خزانہ ملنے والا ہے، جہاں مجھے دلجان کو پڑھنے کا موقع ملے گا، جہاں میں دلجان کے بہادری کے قصے پڑھونگا جہاں میں فلسفہ مزاحمت کو سمجھتا جاؤنگا، وطن کے عاشقوں کا قصہ سنتا جاؤنگا، جہاں امیرجان جیسے دوستوں کا قصہ سننے کو ملے گا۔ اس کتاب میں محسوس کرونگا تو کبھی پری جیسے کسی دلبر کی ڈائیری کی یادیں پڑھتا رہونگا تو کسی تحریر پر استاد جیسے عظیم رہبر کی تعلیمات پڑھتا رہونگا۔

‎اب روز میں اس کتاب کے انتظار میں ہوتا ہوں کہ کب یہ کتاب مجھے ملے گا، کیسے میں اسے پڑھتا رہوں گا، شاید میں اس کتاب کو اس کولیکشن میں رکھوں گا جہاں میں نے مرید کے کتاب کیساتھ پری ٹائیری بھی رکھی ہے۔ جہاں ایک اور کتاب ضیاء کے نام سے آنے والا ہے، بس میں یہی امید کرتا ہوں کہ اس کتاب کو پڑھ کر میں اس کے ایک ایک لفظ پہ عمل کرونگا کیونکہ اس کتاب کا سوچ کر میرے آنکھوں کے سامنے اس ماں کا دروشم آتا رہتا ہے جو مجھے دلجان کے قصے سنا رہا تھا کیونکہ یہ کتاب وہ کتاب ہوگی میری زندگی میں جو امیل کے پاس کی کسی ڈائیری میں تحریر کی گئی ہوگی، جہاں ہر لفظ مزاحمت کی گواہی دیتا جائے گا، ضیاء مجھے تحریروں کے اس کتاب کی اشد انتظار ہے، میں اس کتاب کے ذریعے تجھے محسوس کرنا چاہتا ہوں تجھے سمجھنا چاہتا ہوں۔


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں