سردار اور سردار ذہنیت
تحریر: مہاران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں اس بات سے قائل ہوں کے دنیا جہاں میں اگر کوئی کسی سے بہتر ہو سکتا ہے تو وہ قابلیت کی بنیاد پر ہی ہوسکتا ہے، اس دنیاکو بنانے والے نے کسی کو بناتے وقت اسکی حیثیت کا تعین نہیں کیا، انسانی وجود آنے کے بعد ہی لوگوں میں اونچ نیچ ، بدر او بہتر کا بحث شروع ہوا لیکن بہتر کو بہتر کہا جاسکتا ہے کوئی خود سے خود کو کسی سے بہتر کہلوانے کا مجاز نہیں ہوسکتا –
میں کسی سے اعلیٰ کیوں ہوں ؟ کیا میں نے حقیقت میں کچھ بہتر سر انجام دیا ہے یا میرے بہتر ہونے کا فیصلہ لوگوں کے بے شعوری کا نتیجہ ہے؟ سردار و سردار ذہنیت میرے سماج کا حصہ ہی نہیں نا میں نے یہ فیصلہ کیا کہ کوئی میرے فیصلوں کا حکمران ہو اور یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ بلوچ سماج میں سردار، نواب، بھوتار حصہ تھے یا اسے بیرونی حملہ آوروں نے امپورٹ کرکے بلوچ سماج کا حصہ بنایا –
سردار کوئی شخص ہوسکتا ہے، اسکی اچھائی کی بات ہو سکتی ہے ، اسکے سیاسی نظریئےسے اتفاق کیا جاسکتا ہے لیکن سردار ذہنیت کسی آزاد سماج کے لئے نا قابل قبول ہے۔ کوئی ترقی پسند سماج اس ذہنیت کو قبول کرکے اسکے ساتھ چلنے کا اہل نہیں ہوسکتا ہے جب تک سماج میں شخص اپنے فیصلوں پر آزاد نہیں ہوتا ، جب تک کوئی اور کسی کے فیصلوں پر حاوی ہو وہ سماج بالکل بھی ترقی نہیں کر سکتا نا کہ اس سے امید رکھی جاسکتی ہے ۔
بہتر سماج کے لئے ضروری یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ اس سماج میں موجود نظام اس سماج کے تمام طبقات کے لئے بہترین نظام قائم کرنے کا اہل ہو، اگر نہیں تو ایسے نظام کی مخالفت کرنی چاہیے بلکہ اسکا خاتمہ کردینا چاہیے ایسے ہی بلوچ سماج میں سردار و سردار حیثیت کے کردار کی ضرورت آخر کیوں؟
بلوچ سماج میں سرداروں کا کردار ظاہری سطح پر چاہے چھوٹی تعداد میں مثبت رہا ہو لیکن پھر بھی کیوں کوئی پیدا ہوتے ہی حکمران بننے و فیصلہ ساز ہونے کا حقدار ٹہرتا ہے ؟
سردار ذہنیت کسی بھی سطح پر ہو وہ خود کو عام شخص کا پسندیدہ اور نجات دہندہ تصور کرتا ہے وہ اس سوچ پر رہتا ہے کہ اسکے سردار ہونے کا تھوڑا سا حق ضرور بنتا ہے۔ اسے کسی عام سے شخص سے بہتر تصور کیا جائے بجائے اسکے وہ عام شخص قابلیت میں مجھ سے کتنا ہی بہتر کیوں نا ہو، میرا مقام ضرور مختلف ہی ہوگا-
کچھ وقت سے سوشل میڈیا پر بلوچ خاتون کی ویڈیو شیئر کی جارہی ہے کہ کیسے ایک سردار نے اسے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا یہ تو سوشل میڈیا پر آنے والی خبر تھی اندرونی طور پر سردار و سماج کے تباہی کی بیچ جو رشتہ ہے وہ خوفناک اور خون آلود ہے۔
قبائلی جھگڑوں میں سردار کے پناہ میں خون ریزی، خون بہا میں خواتین کی زبردستی شادی، قبائلی فیصلوں میں خواتین کا سنگسار کرنے قتل حق سردار کو دیا جاتا ہے-
کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جو کہ قبائلی فیصلوں میں خون بہا کے بدلے سردار و اسکے خاندان کے خدمت کے لئے خواتین کو غلام بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پھر وہ خاتون زندگی بھر اس سردار کی خدمت میں گزار دیتی ہیں۔ کسی گھر کے مرد نے کوئی گناہ کیا ہے یا بھاگ کر کسی سے شادی کی ہے تو اس گھر سے کسی خاتون کو سردار کے یہاں زندگی بھر ایک مزدور کے طور پر قیدی بنایا جاتا ہے –
ہر سردار کے گھر میں موجود خواتین مفت کے مزدور ہوتے ہیں جو قبائلی فیصلوں کے عوض لائے گئے ہونگے یا کسی خاتون کے گھر کا کوئی مرد گناہ کا مرتکب ہوا ہو یا کسی خاتون نے پسند کی شادی کرنے کی کوشش کی ہوگی پر سزا اس خاتون کو دیا جاتا ہے اور اسے غیرت کا بدلہ تصور کیا جاتا ہے –
سردار و سردار ذہنیت بلکہ کسی بھی شخص کا کسی سماج میں سپیرئر یا فیصلہ ساز ہونے کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا جب تک سماج میں قانون و انصاف کا نظام قائم نہیں ہوگا ایسے شخصی فیصلوں سے سماج ترقی کے بجائے تباہی کے طرف ہی سفر کرتا رہے گا –
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذات۶ی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں