خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان کا کیا کردار تھا؟ امریکا خفیہ رپورٹ سامنے لے آیا

240

امریکا نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے خفیہ انٹیلی جنس رپورٹ جاری کردی۔ 

یہ نظرثانی شدہ جزوی خفیہ انٹیلی جنس رپورٹ نئی جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے سامنے لائی گئی ہے۔

امریکا کی جانب سے جاری خفیہ رپورٹ 2 سال پرانی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کو پکڑنے یا قتل کرنے کیلئے ترکی کے شہر استنبول میں آپریشن کی منظوری دی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2017 کے بعد سے محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس آپریشنز پر مکمل طور پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا جس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ سعودی حکام نے اس نوعیت کا آپریشن سعودی ولی عہد کی منظوری کے بغیر کیا ہو۔

رپورٹ میں اس 15 رکنی اسکواڈ کا نام بھی ظاہر کیا گیا ہے جو استنبول گیا تھا اور کہا گیا ہے کہ قوی امکان ہے کہ اسی اسکواڈ نے خاشقجی کی ہلاکت میں حصہ لیا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ مذکورہ اسکواڈ کو پہلے سے معلوم تھا یا نہیں کہ آپریشن کا نتیجہ خاشقجی کی موت کی صورت میں نکلے گا۔

رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خاشقجی کو مملکت کیلئے خطرہ تصور کرتے تھے اور انہیں خاموش کرانے کیلئے ضرورت پڑنے پر پرتشدد طریقے استعمال کرنے کے بھی حق میں تھے۔

خیال رہے کہ جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں یہ کہہ کر بلایا گیا تھا کہ وہ اپنی شادی سے متعلق کاغذی کارروائی یہاں مکمل کرسکتے ہیں۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر 2018 کو ترکی میں استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے سے لاپتہ ہو گئے تھے جس کے بعد ان کو قتل کیے جانے کی تصدیق ہوئی تھی۔

بعد ازاں سعودی عرب کی جانب سے اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں واقع قونصل خانے میں لڑائی کے دوران ہلاک ہوئے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق سعودی صحافی کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کو بے دردی سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا تھا جبکہ گمشدگی کے چند روز بعد جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل کے گھر کے باغ سے برآمد ہوئے تھے۔

بعدازاں سعودی عدالت نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 8 ملزمان کو قید کی سزائیں سناتے ہوئے مقدمے کو ختم کردیا تھا تاہم گزشتہ سال مقتول صحافی کے لواحقین نے قاتلوں کو معاف کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد قانون کے تحت سزائیں کم کی گئی تھیں۔