سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاج جاری ہے، احتجاج کو مجموعی طور پر 4232 دن مکمل ہوگئے۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچوں کی اغواء نما گرفتاریاں اور شہادتیں نئی بات نہیں، یہ 13 نومبر 1839 سے لیکر آج تک جاری ہے۔ اُس وقت انگریز بھی اسی طرح بلوچوں پر حکومت کرنے کیلئے حربے استعمال کرتا رہا لیکن پھر بھی وہ بلوچوں کی مزاحمت کو ختم نہیں کرسکیں۔
ماما قدیر نے کہا کہ اس وقت بھی عیدو نما مخبر بنائے گئے اور آج اسی طرح کے مخبر اور ڈیتھ اسکواڈز بنائے گئے ہیں۔ تاریخ کا حصہ بننا کسی کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ کردار خود تاریخ کے ساتھ جڑتے ہیں۔
ماما قدیر کا مزید کہنا تھا کہ ایسے پچاس ہزار سے زائد فرزند ہیں جو عالم، زانتکار، استاد کی شکل میں بلوچ قوم میں پائے جاتے ہیں ان کو اٹھاکر جبری طور پر غائب کیا جاچکا ہے، ان میں سے بعض کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی۔
ماما قدیر نے کہا پاکستان کے مرکزی وزراء اور بلوچستان حکومت کے وزیر داخلہ سمیت دیگر کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ پانچ سو افراد میں سے تین سو بازیاب کیے جاچکے ہیں لیکن مذکورہ افراد اس بات سے آنکھیں چرا رہے ہیں کہ روزانہ مزید کتنے افراد لاپتہ کیئے جارہے ہیں۔
ماما قدیر نے مزید کہا کہ پانچ سو افراد کی ایک فہرست تھی جو حکومت کو پہلے مرحلے میں فراہم کی گئی تھی، پانچ سو پانچ سو کی متعدد فہرستیں بلوچ لاپتہ افراد کے ناموں کیساتھ موجود ہیں جن کے حوالے سے تاحال حکومت خاموش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف گذشتہ روز چار افراد کو جبری طور لاپتہ کیا گیا جن کا تعلق کولواہ اور پنجگور سے ہیں، یہ دستیاب واقعات ہیں لیکن بلوچستان کے کئی علاقوں میں ایسے واقعات مواصلات کی کمی اور بندش سمیت لواحقین کے خوف کے باعث رپورٹ نہیں ہوپاتی ہے۔