ارشاد رانجھانی قتل، دو سال بعد
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
ارشاد رانجھانی کو کراچی کے مضافات میں قتل ہوئے دو سال بِیت گئے۔سب کچھ وہیں ٹہرا ہوا ہے جیسا اس کے مقتول بن جانے سے پہلے ٹہرا ہوا تھا۔وہی لوگوں کو ہجوم، وہی بے ترتیب لوگ، وہی لوگوں کی بے ترتیب بولی، وہی چوراہاہے پر رش، وہی اُڑتی دھول، وہی رُکتی چلتی گاڑیاں، وہی چیزوں کا بھاؤ تاؤ، وہی گالم گلوچ، وہی سستے ہوٹلوں پر لوگوں کا ہجوم، وہی ان چھپڑا ہوٹلوں میں مادھو ری کا اَدھ کھلا ناچ، وہی بڑے سے کپ میں آدھی چائے، وہی سستے سگریٹوں کے بڑے کش، وہی سرائیکی،پنجابی میں گلابی اردو کی تکرار!وہی مادری بولی میں گالیوں کا زور دار ہار، وہی عورتوں کا ایکسرے کرتی مردوں کی بیہودہ آنکھیں، وہی دن کو ویران ہوٹل، وہی شام کو آہستہ آہستہ آباد ہوتے ہوٹل، وہی رات کو خواجہ سراوں کو تلاش کرتے جنسی مریض، وہی روز کے گاہکوں کو تلاشتے بوڑھے بیمار خواجہ سرا، وہی بیمار جنسی مریض۔
وہی ہاتھوں میں تیل کی بوتلیں بجاتے مالشیے!
وہی بُرقعہ پہنے ضرورت مند لڑکیاں، وہی رات کو ان لڑکیوں سے بہاؤ تاؤ کرتے گوالے!
وہی اپنی جنس کا سامان کرتے بس کنڈیکٹر، وہی بسوں کے چرسی ڈرائیور!
وہی رات کے اندھیرے میں منی بسوں کی آخری سیٹوں پر لڑکوں سے سیکس کرتے بوڑھے ڈرائیور
وہی دن میں فقیر کا روپ دھار کر منگتا اور رات کو معصوم بچوں کو ریپ کرتا بھیڑیا!
وہی گاڑیوں کے پریشر زدہ ہارن، وہی چنگ چیوں میں ننگی شاعری کے بجتے ریکارڈ!
وہی پرانی محبوبائیں کے نئے عاشق!
وہی دن کو کوئلہ پر گرم ہو تے تندور اور ان تندوروں کی گرمی میں سوتے آوارہ کتے!
وہی رات کو نقب زنی کرتا لوفروں کا ٹولا، وہی رات کو گھر جا تے ڈرتے مسافر!
وہی رحیم شاہ کے وفا دار گنڈے، وہی ارشاد رانجھانی کے حق میں بولتے لوگ۔
وہی ہوٹلوں کی دیواروں پر لکھا ہوا کہ،،یہاں سیاسی باتیں کرنا منع ہے!،،
وہی ان ہی ہوٹلوں میں باتوں باتوں میں سرکاروں کا گرانا اور چڑھانا!
وہی بھونکتے انسان وہی خاموش کتے!
وہی خاموش فضاؤں میں انڈین ریکارڈ کا بے ہودہ شور اور پر شور فضا میں گونگی خاموشی۔
اس چوراہے پر اب بھی سب کچھ ویسا ہی ہے جس چوراہے پر دو سال پہلے آج ہی کے دن ایک علاقائی دہشت گرد رحیم شاہ نے جست کارکن ارشاد رانجھانی پر کئی گولیاں مار کر پہلے زخمی کیا جب ارشاد زخمی ہوکر اس چوراہے پر گرا تو دہشت گرد رحیم شاہ خود ہی قاضی،خود ہی قانون اور خود ہی منصف بن کر زخمی رانجھانی کو بہت سی گولیاں مار کر قتل کر دیا۔حالانکہ رانجھانی اس دہشت گرد کی گولیوں سے پہلے ہی زخمی ہو چکا تھا اور کافی لوگ بیچ میں آکر رحیم شاہ کو یہ منت کر رہے تھے کہ اب اس زخمی کو اسپتال منتقل کیا جائے جس میں ارشاد رانجھانی کا اپنا بھائی بھی اس دہشت گرد کو منت کر رہا تھا۔ ہابیل رحیم شاہ نہیں مانا اور مزید گولیاں چلا کر اس نے قابیل جیسے ارشاد رانجھانی کو قتل کر دیا۔
اس چوراہے پر اب بھی سب کچھ ویسا ہی ہے۔اگر کچھ بدلا ہے تو یہ ہے کہ ہابیل گولیاں نہیں چلاتا اور قابیل قتل نہیں ہوتا۔مشتاق سرکی اب بڑا لیڈر بن گیا ہے اور مشتاق سرکی کے نام سے اپنی سیاسی پارٹی چلارہا ہے جس کا وجود بس سوش میڈیا تک ہے کل کو اگر سرکا ر سوشل میڈیا کو بند کرتا ہے تو ایسے جُگاڑی کہاں جائیں گے؟یہ سوال بھی اپنی جگہ پر جوں کا توں موجود ہے۔
اور جو اس چوراہے پر نئے مسافر گزرتے ہیں وہ تو جانتے بھی نہیں کہ ان کے پیر کس کے خونِ ناحق کو روند کر گزر رہے ہیں؟اور وہ جانے بھی تو کیوں؟وہ خونِ ناحق تو کب کا سوکھ چکا اور سوکھ کر کب کا ان جوتیوں کے تلؤں کے ساتھ چپک چپک کر کہاں سے کہاں پہنچا کون جانے اور کیوں جانے؟کون جانے کے اس چوراہے پر ہابیل نے قابیل کو قتل کیا اور ہابیل کی بھونکتی بندوق سے جو گولیاں چلیں اور جن گولیوں نے گھائل کیا قابیل کو اور جو قابیل کے جسم سے خونِ ناحق بہا وہ اب کہاں تلاشا جائے؟
اس چوراہے پر پرانے پیر تو احتراماً رُک جا تے ہیں کہ یہاں پر ایک شہید کا خونِ ناحق بہا تھا اور نئے پیر کچھ نہیں جانتے کہ اس دھول اُڑاتے چورہاہے پر کیا وحشت اور بربریت کھیلی گئی؟
اس چوراہے پر سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا دو سال پہلے تھابس یہ ہوا ہے کہ جائے واردات پر پڑے اس خون کے دھبے چلتے پیروں کی رگڑ سے مٹ گئے ہیں۔اب اس چورہاہے پر پتھراور مٹی کا نیا سنگم ہو رہا ہے جس میں بہتے پانی سے مٹی جمتی ہے اور پتھروں کی شکل لے لیتی ہے اور کسی وزنی ٹرک کا ٹائر اس پتھر کو اپنے درمیاں پھنسا کر کہاں لے جاتا ہے کون جانے؟
ارشاد رانجھانی کے ناحق قتل نے ایک بلیک میلر کو لیڈر بنا دیا وگرنہ سندھ کو معلوم ہے کہ وہ تو پولیس کا پاتھاریدار ہے مخبر ہے۔ ہابیل رحیم شاہ کا قانون اتنا ہی کاٹ سکا ہے جتنا قانون نے آمر مشرف کا کاٹا ہے۔بس وہ گھر ویران ہوگیا جس گھر کا فرد تھا قابیل جیسا ارشاد رانجھانی۔
اس گھر سے ایک فرد کم ہوا۔اس گھر میں ایک ماتمی موسم ٹھر گیا۔اس گھر میں ایک نئے مرحوم کا اضافہ ہوا۔اس گھر میں ایک اور تصویر فرم کر واکر ٹانگی گئی۔اس گھر میں ایک قبر کااضافہ ہوا۔اس گھر میں بچے یتیم ہوئے۔اس گھر میں بہنوں نے ماتم کیا۔اس گھر میں ایک سدا سہاگن ودوہ ہوئی۔اس گھر میں ایاز رانجھانی نے اپنے بھائی کے دوستوں سے تعزیت وصول کی۔اس گھر میں ایک بوڑھے باپ کی کمر ٹوٹ گئی۔اس گھر میں ایک ماں کی نیند ماری گئی۔ہایبل کی بھوکتی بندوق نے جو کچھ کیا اسی گھر کے ساتھ کیا جو گھر قابیل جیسے ارشاد رانجھانی کا تھا۔کہنے کوتو مشتاق سرکی نے تیس سال صحافت کا در پیٹا پر اس کے حصے میں شہرت کے در کبھی نہیں کھلے۔پر یہ عجیب تماشہ ہے کہ ایک ماں کی نیند ماری گئی اور اس نیند کو کیش کرالیا مشتاق سرکی نے اور شہرت کی دیوی اس کے پاس رات کی محبوبہ کی ماند چلی آئی۔
اس قتل نے سندھ کو کچھ دیر کے لیے یکجا کیا کسی نے سندھ کی اس یکجہتی کو کیش کیا اور اب دو سال بعد سندھ کسی بھولے بسرے وعدے کی طرح منتشر ہے
اب سندھ کی جھولی میں کچھ بھی نہیں
سوائے ارشاد رانجھانی کے ناحق قتل کے!
ہابیل کے پاس بہت پیسہ ہے اور وہ بہت جلد چھوٹ جائیگا پھر اس کے ہاتھ میں بندوق ہو گی اور وہ پھر کسی چورائے پر کسی سندھ کے قابیل کو قتل کر رہا ہوگا
پھر کوئی اس قتل کو کیش کرائے گا
پھر کسی ماں کی نیند ماری جائیگی
پھر سندھ یکجا ہوگا
پھر سندھ منتشر ہوجائے گا
پھر کوئی سرکی،چانڈیو،ابڑو اُٹھے گا
اور لیڈر بن جائے گا اور اسلام آباد میں بچوں کے ساتھ گھومتے
بار بی کی بوٹیاں کھاتے سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر پوسٹ کرتا دکھائی دے گا
کم از کم دو سال سے ارشاد رانجھانی کا ناحق خون تو یہی کہہ رہا ہے
دو سال سے سندھ یہی دیکھ رہا ہے
آپ کیا کہتے ہیں؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں