آن لائن تعلیم کے مواقع اور چیلنجز – اسرار بلوچ

226

آن لائن تعلیم کے مواقع اور چیلنجز

تحریر: اسرار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسانیت شروع ہی سے بے شمار چیلنجوں کے سامنا کر رہا ہے.اسے انہی چیلنجوں کی وجہ سے بے شمار معاشرتی,معاشی, سماجی, اور حتیٰ کہ جانی نقصان اٹھا نا پڑا ہے. انسانوں نے علم,ہنر اور عقل رکھنے کی وجہ سے کسی حد تک کچھ نہ کچھ کامیابی بھی حاصل کی ہے. ان سب سے بڑھ کر اسے سیکھنے کے لئے یہ ملا ہے کہ موجودہ مشکلات کو سامنے رکھ کر مستقبل میں دوسرے مشکلات سے کیسے نمٹا جائے.

دور حاضر میں بنی نوع انسان کو جان لیوا وائرس کویڈ 19 کا سامنا ہے. یہ وائرس اپنے ‘شدید اثرات کی وجہ سے پوری دنیا کو اپنے لپٹ میں لیا ہوا ہے. اس کے جان لیوا اثرات کی وجہ سے زندگی کا ہر شعبہ بری طرح سے متاثر ہے۔ نظام تعلیم بھی اس کے وجہ سے بری طرح متاثر ہے. ترقی یافتہ قوموں نے اپنے تعلیمی معیار کو برقرار رکھنے کے لیئے آن لائن نظام متعارف کرایا، اس کے برعکس ترقی پذیر قوموں کا تعلیمی معیار  پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو رہاہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ آن لائن نظام تعلیم دور جدید کے ضرورتوں میں سے ایک بنیادی جز ہے.لیکن اس نظام کو اپنانے سے پہلے اس کے ضروری مسائل پر توجہ دینا بھی لازمی ہے۔

در حقیقت, آن لائن تعلیمی نظام کا تصور بیسویں صدی کے آخر میں ہواتھا. کہا جاتا ہے کے سب سے پہلے یونیورسٹی آف ٹورنٹو نے یہ تصور 1984 میں پیش کیا. جس کے بعد یونیورسٹی آف پونقس سب سے پہلا تعلیمی ادارہ تھا,جس نے باقاعدگی سے آن لائن نظام تشکیل دی. یہ سب سے پہلے آن لائن تعلیمی نظام کا ایک انقلابی آ غاز تھا.جو دیکھے ہی دیکھتے اکثر ترقی یافتہ ممالک کا خواب بن گیا۔ آج کے اس ڈیجیٹل دور میں دنیا کے سب سے بہترین یونیورسٹیوں میں یہی سسٹم راج ہے.

ایک رپورٹ کے مطابق, اندرا گاندھی نیشنل یونیورسٹی سب سے زیادہ آن لائن تعلیم فراہم کررہی ہے۔ 4 جی اور 5 جی انٹرنیٹ اسپیڈ کی وجہ سے آن لائن تعلیمی نظام کے اہمیت بڑھ رہا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ اس میں دوسرے اخراجات میں کمی آسکتی ہے. کیونکہ آف لائن کلاسوں میں بنیادی ڈھانچہ و دیگر سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم پر کافی برا اثر پڑتا ہے. مثال کے طور پر, مختلف ایپلی کیشنز ,زوم. ٹیلی گرام چینل,گو گل,کے ذریعے مختلف مضامین کے لیکچر ز فراہم ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ اس سے ہنر مند اور قابل اور محنتی طالب علموں کو ملازمت کے مواقع حاصل ہوسکتے ہیں. کیونکہ ذہن طلباء خود ہی مختلف سو شل میڈیا ویب کے ذریعے اپنا چینل بنا کر بھی لیکچر دے سکتے  ہیں.

اس کے ساتھ آن لائن سسٹم میں مختلف سبجیکٹس کے لیکچر کو ریکارڈ کیا جا سکتا ہے، جنہیں کئی دفعہ سنا جاسکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آن لائن تعلیمی نظام کے کئی فائدے ہیں. لیکن اس کے ساتھ منسلک دوسرے سہولیات کو پورا نہ کرنے سے یہ نظام بجائے رحمت کے زحمت بن جاتا ہے۔ اسے نافذ کرنے سے پہلے انٹرنیٹ سسٹم کا بحال ہونا بھی سب سے اہم سمجھا جاتا ہے.

مزید یہ کہ متوازن زبان متعارف کرنا بھی آن لائن تعلیمی نظام کا ایک بنیادی جز ہے.اکثر تعلیمی اداروں میں انگریزی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ ان طالب علموں کے لیے درد سر بن جاتا ہے، جو انتہائی پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں.ساتھ ہی ساتھ, سست اور تابع طالب علموں کے لیے بھی یہ نظام کسی زحمت سے کم نہیں ، جو بالواسطہ یا بلا واسطہ گروپ لرننگ سسٹم کو ترجیح دیتے ہیں.

کچھ اور رکاوٹیں مثال کے طور پر وبا کے دوران تعلیمی اداروں کے ٹیوشن فیس میں بے جا اضافہ,سلیبس کو مختصر اور ذاتی سرگرمیاں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا,آن لائن تعلیمی ماحول کا فضا قائم کرنا اور علم و آگاہی نہ ہو نے کی وجہ سے آن لائن تعلیمی نظام کو متعارف کرنا ایک ناکام عمل ہو کہ رہ جاتا ہے.

مختصر, آن لائن تعلیمی نظام دور حاضر میں تعلیمی میدان میں ایک مثالی نمونہ ہے. اس کے نافذ کرنے سے تعلیم حاصل کرنا مزید آسان اور مفید ہوسکتا ہے. یہ وباء کے لہروں کے خطرناک اثرات سے بھی پورے تعلیمی نظام کو مکمل محفوظ اور جاری رکھ سکتا ہے۔ اکثرترقی یافتہ ممالک اسی نظام کو کامیابی کے ساتھ نافذ  کر چکے ہیں.اس کے بر عکس ترقی پذیر ممالک میں اس کمی کو شدید محسوس کی جاتی ہے.کیونکہ وہاں پہلے سے ہی تعلیمی نظام معیار کے مطابق نہیں ہیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں