آئیں شازیہ کے پیر چھوئیں
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
ایاز نے کیسی دلکش دکھ بھری بات کہی ہے کہ
”تنھن وقت ھوائون ٻُٽجن ٿيون،جنھن وقت پکي ٿو آنءُ ڪھان
تنھن وقت سمندر گھُٽجي ٿو،جنھن وقت مڇي ٿو آنءُ تريان!“
(اُس وقت ہوائیں مرتی ہیں،جس وقت میں پنچھی کی گردن پر چھری پھیروں
اس وقت سمندر مرتا ہے،جس وقت میں مچھلی کو تلتا ہوں)
جب کوئی پنچھی پر چھری پھیرتا ہے تو ہوائیں مرنے لگتی ہیں،اور جب کوئی مچھلی کو تلتا ہے تو سمندر مرنے لگتا ہے یہ ایک حساس شاعر کے احساسات ہیں پر جب ایاز کے دور میں کسی بہن کے بھائی کو اُٹھالیا جاتا تو اس وقت مرتی،روتی،چیختی،تڑپتی،ماتم کرتی،سینہ کوبی کرتی،منھ پیٹتی،مسافر لڑکی اور اس مسافر لڑکی کے پیچھے بوڑھی ماں کو جاتے دیکھ کر حساس شاعر کیا لکھتا؟
یہ کچھ ایسا لکھتا کہ اس کے بعد وہ کچھ نہ لکھتا
یا وہ مر ہی جاتا
پنچھیوں کی گردنوں پر چھریوں کے پھیرنے کو ایاز نے ہواؤں کے درد میں سمویا
اور مچھلیوں کے یوں تلے جانے کو سمندر کے پانیوں میں بھر دیا
پر اس وقت کوئی ایسا حساس شاعر نہ تھاجو شازیہ چانڈیو کے آنسوؤں کو،دردوں کو،چیخوں کو،ماتم کو سینہ کوبی کو نوحوں کو،اداسی کو کسی ہوا،سمندر میں سموتا،ان اندھے شاعروں اور دانشوروں کو تو شازیہ کا وہ سفر بھی نظر نہیں آ رہا تھا جو اس نے موتمار موسم میں کراچی سے شروع کیا جو پنڈی تک جانا تھا پر اس سے پہلے ریا ستی اداروں نے اس سفر کو سندھ اور پنجاب کے باڈراوباوڑو پر ایک ڈرامہ کے تحت ختم کیا اور شازیہ اپنے تمام دکھوں اور دردوں کو سمیٹے حیدر آباد پریس کلب پر لوٹ آئی وہ پریس کلب پر ایسے بیٹھی رہی جیسے کسی مسافر کی تمام ہی منزلیں مر گئی ہوں اور وہ سوچ رہا ہو کہ اب کیا کیا جائے
یا خدا ہی نیچے آجائے
یا خدا یسوع کی ماند اوپر بلائے
یا کوئی معجزہ ہی ہو جائے
پر نہ خدا نیچے آیا،نہ وہ یسوع کی ماند اوپر اُٹھائی گئی اور نہ ہی کوئی معجزہ ہوا
حالاں کہ وہ یسوع کی ماند کب کی اوپر اُٹھالی گئی تھی۔
اسے تلاش یسوع کی تھی
پر وہ آ پ یسوع بن گئی تھی
اسے تلاش پنہوں کی تھی
پر وہ آ پ پنہوں،پنہوں ہو گئی تھی
نہیں معلوم وہ یسوع تھی،پنہوں تھی،سسئی تھی،مریم تھی
پر اس کے ساتھ ایک ماں بھی تھی جو ہو بہ ہو مریم تھی جب وہ ماں اس کے ساتھ سفر کرتی
شازیہ اپنے کاندھوں پر بھاری صلیب لیے چلتی توپیچھے چلنے والی ماں ہو بہ ہو مریم لگتی
یروشلم کی مریم
یروشلم کی گلیوں کی مریم
عمران کی بیٹی مریم
یسوع کی ماں مریم
دکھوں کی ماری مریم
کس مریم نے موتم مار موسم میں سیکڑوں کلومیٹر اپنے بوڑھے پیروں سے سفر کیا ہوگا؟
روئی ہوگی
اپنے دوپٹے سے آنکھیں پونچھی ہونگی
بیٹی نے اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر سپنے دیکھے ہونگے
پھر اسی بیٹی نے اپنے ماں کے مسافر پیروں کو دیکھ کر رویا ہوگا
بہت رویا ہوگا۔۔۔۔۔
وہ ماں یا تو یسوع کی ماں تھی
یا تو شازیہ کی ماں ہے
جس وقت مائیں بیٹیاں مسافر تھیں سندھ کے دانشور کہاں تھے؟سندھ کے حساس شاعر کہاں تھے؟سندھ کے قلم کار کہاں تھے؟سندھ کے اخبارات پر قہ کرنے والے،سندھ کے اخبارات پر موُت نے والے،سندھ کے اخبارات کے ایڈوٹوریل پیج پر دانشوری کرنے والے،کہاں تھے جب کہ ایک شاعر تو پنچھیوں کے مارے جانے پر ہوا کو مرتا محسوس کرتا تھا مچھلیوں کے تلے جانے پر سمندر کو مرا ہوا جانتا تھا
پر جب دھرتی کی مائیں اور بیٹیاں کی مصلوب ہوں تو کسی شاعر کا دم کیوں نہیں گھٹا؟
کوئی شاعر احتجاجاً کیوں نہیں مرا؟
سندھ کے کسی بھی دانشور کو دم گھٹتا کیوں محسوس نہیں ہوا؟
کسی بھی شاعر کی حساسیت کیوں نہیں جاگی؟
یہ ضرورری تو نہیں کہ سندھ کے شاعر بس میہڑ کی مہندی اور پریالوں کے پرین ء کی باتیں ہی لکھیں؟
وہ ماؤں کی مسافری اور بہنوں کے دردوں کو کیوں نہیں لکھتے؟
یہ ضرو ری تو نہیں کہ سندھ کے شاعر بس خوبصورت چہروں،گلابی ہونٹوں اور گو ل پستانوں پر ہی قلم آزمائی کریں؟
وہ ان آہوں،چیخوں،سسکیوں اور سینہ کوبیوں پر کیوں نہیں لکھتے جو بہنیں اس وقت کرتی ہیں جب ان کے پنہوں جیسے بھائیوں کو بندوق بردار لے جاتے ہیں اور وہ جلد نہیں لوٹتے!
یہ ضرورری تو نہیں کہ جسموں کی خوشبوؤں پر لکھا جائے؟
ان رتجگوں پر بھی تو لکھا جائے جو ماؤں اور بہنوں کا نصیب ٹھہرے ہیں!
یہ ضروری تو نہیں کہ نیند پر لکھا جائے،نیند میں آئے خوابوں اور سپنوں پر لکھا جائے جن خوابوں اور سپنوں کو دیکھ کراور بہت سا سونے کو دل کرے
پر ان ڈراؤنے خوابوں اور ڈراؤنے سپنوں پر کون لکھے گا جنہیں دیکھ کر نیند ہی نہیں آتی؟
جب شازیہ چانڈیو پر درد کی بارش برس رہی تھی
اس وقت شازیہ اکیلی تھی
درد کی ماند
رات کے آخری پہروں کی آکاش پر بہت دور اکیلے چمکتے تارے کی ماند
وہ مریم نہ تھی
پر اس کا یسوع مصلوب تھا
پر اس وقت بھی اس کے ساتھ وہ ماں موجود تھی
جو ہو بہ ہو مریم ہے
یروشلم کی مریم
یروشلم کی گلیوں میں،یسوع یسوع کرتی مریم
وہ سسئی تھی
اور اسے اپنے پنہوں کی تلاش تھی
اس وقت بھی اس کے ساتھ سندھ کے دانشور ساتھ نہیں تھے۔سندھ کے حساس شاعر کیا پر اس وقت تو اس کے ساتھ سندھ کے باغی شاعر بھی شازیہ کے ساتھ نہیں تھے،نہ وہ شاعر اس کے ساتھ تھے جو
پریالو کے پرین ء
اور میہڑ کی مہندی کے گیت لکھتے ہیں.
اور نہ وہ شاعر ساتھ تھے جو
بلند ہوتے پرچموں
اور دھرتی کے گیت لکھتے ہیں
اس کے ساتھ تو اخباری دانشور بھی ساتھ نہیں تھے
جو دکھ تھا شازیہ نہ خود جھیلا
جو درد تھا شازیہ نے اپنے کمزور کاندھوں پر آپ اُٹھایا
شازیہ نے اپنی پوتی کو آپ پرچم بنایا
شازیہ نے وہ سفر کیا ہے جو اس کے پیروں کا بھی نہیں
شازیہ نے دکھوں کے دل پر پیر رکھ کر سفر کیا ہے
ایسا سفر
جس کے بارے میں یہ تو شازیہ جانتی ہے
یا سندھ!
لطیف کے سفر کی جوتیوں کو تمر محسوس کیا کرتا تھا
شازیہ کے سفر کی جوتیوں کو کون محسوس کریگا
سندھ کی دانش؟
سندھ کے باغی،حساس شاعر؟
یا سندھ؟
شازیہ کا پنہوں جیسا بھائی بازیاب ہوا
مریم کا یسوع جیسا بیٹا مصلوب کی گئی صیلیب سے اتر آیا
اور شازیہ کا دکھوں بھرا سفر انے اختتام کو پہنچا
آئیں دعا کریں سندھ اور بلوچستان کی سب ماؤں اور بیٹیوں کے پنہوں اور یسوع جیسے بیٹے واپس لوٹ آئیں اور ان ماؤں بیٹوں کا دردوں بھرا سفر ختم ہو اور وہ ایسی راہ کی کبھی مسافر نہ بنیں۔۔۔
آئیں مسافر،تھکی ماندی،دردوں سے چور چور
شازیہ چانڈیو کے زخمی پیر چھوئیں
اس کے زخمی کاندھوں پر اجرک ڈالیں
اور اسے”شاہ جو رسالو“ گفٹ کریں
جس میں ان دردیلی ماؤں اور بیٹیوں کے دکھوں کا مرہم ہے
بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں