آئیں اسے گیتوں سے رخصت کریں – محمد خان داؤد

185

آئیں اسے گیتوں سے رخصت کریں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

آئیں اس کے لیے ایسے الفاظ تراشیں کہ ایسے الفاظ اس سے پہلے کسی کے لیے نہ تراشے گئے ہوں
آئیں اس کے لیے ایسی دعا لکھیں کہ جو مقدس کتابوں میں بھی نہ ہو
آئیں اس کے لیے مقدس کتابوں کے ان حوالوں کو تلاشیں جو یا تو پیغمبروں کے لیے استعمال ہو تے ہیں یا شہیدوں کے لیے
آئیں اس کے ماں کے کاندھوں سے اس صلیب کو ہٹا دیں جو صلیب
عیسیٰ سے اتری تو مریم کے کاندھوں پہ آئی
اور اسد خان اچکزئی کے کاندھوں سے اتری تو اس ماں کے کاندھوں پہ آگری جو ماں یروشلم کی مریم نہیں
آئیں اس کے خاموش ماتھے پہ ایسا بوسہ دیں جیسا بوسہ موسیٰ کی ماں موسیٰ کو دیا کرتی تھی
آئیں اس کے بالوں کو سہلائیں جو بال لہوسے چپکے ہوئے ہیں
آئیں اس کے مسخ شدہ چہرے کو پہچانیں اور ایک دوسرے کو دلا سہ دیں کہ
”ہاں یہ وہی اسد خان ہے لال لاٹین والا“
آئیں اس کے جسم پر ان زخموں کو گنیں جو اسے یسوع کے جسم کی مانند دیے گئے ہیں
پر ہم اہل یروشلم کی ماند بے اعتبارے نہیں کہ اس کے زخموں میں انگلیاں ڈالیں اور یہ دیکھتے پھریں کہ اسے زخم آئے بھی ہیں کہ نہیں؟جب کہ وہ اب مردہ حالت میں ہما رے سامنے موجود ہے اور ہم جانتے ہیں کہ بہت جلد محبت کرنے والے ہاتھ اسے آخری بوسہ دیں گے اور وہ نظروں سے اوجھل ہو جائے گا
ہمیشہ ہمیشہ۔۔
جب وہ زندہ تھا گم تھا تو ہم احتجاج کیا کرتے تھے
اب جب وہ مسخ شدہ حالت میں پایا گیا ہے تو ہم کی کیا کریں؟
آئیں ہم اس کے لیے نوحہ لکھیں جسے دیکھ کر لال لالٹین جلا کرتا تھا
جسے ایسی حالت میں دیکھ کر لالٹین بُجھ سا گیا ہے
وہ نہیں رُکے گا،وہ نہیں ٹہرے گا اگر اسے رُکنا ہوتا،اگر اسے ٹہرنا ہوتا تو اسے گم کرنے والے سینے اور کن پٹی پر کئی گولیاں نہ داغتے جس سے وہ ان گم کردہ کو کیا پر اپنا پتا بھی نہیں بتا پا رہا،وہ چلا جائے گا،وہ بہت جلد قبر کی مٹی کو لہو لہو کر دے گاقبر کے اندر سرخ لہو ہوگا اور قبر کے اوپر سرخ گلاب ہونگے،وہ نہیں رُکے گا قبر پر فل وقت کوئی پتھر رکھا جائے گا اور کل اس پر کتبہ نصب کر دیا جائے گا اور پھر وہ سرخ گلاب سوکھ جائیں گے اور قبر اندر سے لہو سے بھر جائے گی
آئیں اس کے لیے نوحہ لکھیں وہ چلا جائے گا
پانچ ماہ سے تو ہم نے بس اسے تلاشا ہے،گم شدہ بچے کی طرح!
ہم روئے نہیں،ہم کسی سے بغلگیر ہوکر اپنے دل کے آنسوؤں کو باہر نہیں نکال سکے
نہ ہم نے کسی کو دلاسہ دیا اور نہ ہمیں کسی نے دلاسہ دیا
بس ہاتھوں میں اس کی میلی سی تصویر لیے اسے تلاشتے رہے
آج وہ مل تو گیا ہے پر بس مہمانوں کی مانند
وہ چلا جائیگا اور ہم بس پیچھے آخری مسافروں کی مانند اس قافلے کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے جہاں مسافر قبروں میں اتر جا تے اور پیچھے پیچھے چلنے والے آخری مسافر واپس لوٹ کر اس کی باتیں کرتے ہیں یا خاموش ہو جا تے ہیں
اس کے چلے جانے پر ہم یقینا خاموش ہو جائیں گے
اگر بات کریں بھی تو کس سے
اور کہیں بھی تو کیا
اس لیے آئیں آج بہت روئیں۔۔۔
وہ جس کی محبت میں لال لالٹین بھڑکو(بُجھتے بُجھتے جل اُٹھنا) دے کر جل اُٹھتا تھا،اس کی گم شدگی پر وہ لالٹین کبھی جلتا،کبھی بُجھتا پر آج تو وہ بُجھ ہی گیا ہے۔اب وہ لال لاٹین کب جلے گا ہم نہیں جانتے
پر وہ دل کب بُجھے گا
جو دل اسد اچکزئی کی ماں کا ہے
جو دل اسد اچکزئی کی محبوبہ کا ہے
جو دل اسد اچکزئی کی جوان ہو تی بیٹی کا ہے
یہ بھی ہم نہیں جانتے
پر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اسد اچکزئی کے اندوناک قتل پر اگر لال لالٹین بُجھ سا گیا ہے
تو دور کوئٹہ کے پہاڑوں کی اُوٹ میں تین دل جل اُٹھے ہیں
ایسے جن کے لیے غالب نے کہا تھا کہ
”جلا ہے جسم تو د ل بھی جل گیا ہوگا
کُریدتے کیا ہو،جستجو کیا ہے؟!“
یہ تو غالب نے ہمیں بتا دیا کہ جلتے جسم کے ساتھ دل جل جاتا ہے،
پر ہمیں یہ کون بتائے گا کہ گمشدہ انسانوں کے ساتھ گم شدہ انسانوں کو کیسے تلاشا جائے؟
پھر مسخ شدہ لاشوں کے ساتھ اور کون کون مسخ شدہ ہو جاتا ہے؟
اور پھر مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کے بعد ان کا کیا حشر ہوتا ہے جو اپنے پیاروں کو تلاشتے پھرتے ہیں؟
اور پھر رات کے شروعاتی پہروں میں گم شدہ مسخ شدہ لاشوں کو قبروں کے حوالے کیا جاتا ہے اور جو پھر اداس روحوں کے ساتھ لوٹ آتے ہیں ان کا جیون کیسا ہوتا ہے؟
ماتم کرتی بے صبری ماؤں پر کیا گزرتی ہے؟
اس وقت دلاسے کام کیوں نہیں کرتے؟
ماتمی گھروں میں کھیلتے معصوم بچے کیوں نہیں جان پا تے کہ ان کے گھر پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے؟
ماتمی گھروں کا سب کچھ بدل جاتا ہے
پھر بھی دنیا ویسے کی ویسی رہتی ہے
رات ہو تی ہے
دن ہوتا ہے
آکاش پر سورج چاند بھی ہو تے ہیں
پر ماتمی گھروں کا سب کچھ بدل جاتا ہے
اسد اچکزئی کے گھر کا بھی سب کچھ بدل چکا ہے
پر پھر بھی دینا ویسے کی ویسی ہے
آج اسے دفنا دیں گے
اور کل نیا دن بھی پھوٹ پڑے گا
پھر کیا بدلا ہے
اور کیا بدلے گا؟
نہ بندوق بدلی
نہ نہتے جسم بدلے
نہ مسافر اپنے بھائیوں کو تلاشتی بہنیں بدلیں
نہ ماتم کرتی مائیں بدلیں
نہ آہیں بدلیں
نہ درد بدلے
نہ گریہ بدلا
نہ ماتم بدلا
نہ مغوی بدلے
نہ ان کی مسخ شدہ لاشیں بدلیں
وہ جا رہا ہے
آئیں اسے گیتوں سے رخصت کریں!
”دل ہی تو ہے،نہ سنگ وخشت،درد سے بھر نہ آئے کیوں!
روئیں گے ہم ہزار بار،کوئی ہمیں ستائے کیوں!
۔۔۔۔۔۔
ناتمام!


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں