سندھ سید کے بعد – محمد خان داؤد

140

‎سندھ سید کے بعد

‎محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

‎سندھ سید کے بعد معصوم مسکراہٹ نہیں ہے،لبوں پر پھیلا تبسم نہیں،صوفیوں کی ”ھو ھو“کی صدا نہیں ہے۔لاہو تیوں کا طویل سفر نہیں ہے۔شاہ کی شاعری پڑھتے شاہ کا فقیر نہیں ہے۔ نہ گونج ہے اور نہ آکاش میں اُڑتی کونج ہے۔ نہ تھر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ریت ہے، نہ مور ہے نہ مور کی پکار ہے سید کے بعد تو سندھ مورنی کا آنسو بھی نہیں!

‎سندھ کارونجھر کی کور نہیں،سندھ ہیموں کی للکار نہیں،سندھ وہ تھری کھُنبی بھی نہیں جسکے صحرا میں اُگ آنے سے آنکھوں میں روشنی دوڑ جا تی ہے۔ سید کے بعد سندھ تھر پر برستی بارش نہیں،بارش کی پہلی بوند نہیں،اور وہ منھن وسائی بھی نہیں جو اپنے لال مخملی بدن سے صحرا کے دامن میں ایسے رینگتی رہتی ہے جیسے سید نے سندھ میں زندگی بھر دی تھی۔

‎سید کے بعد سندھ دولھا دریا خان نہیں پر وہ خاموش مکلی کا قبرستان ہے جہاں سب خاموش ہیں جہاں سب سو رہے ہیں،اب سندھ کوئی مقدس مقام نہیں۔کوئی مقدس صحیفہ نہیں اب توبس ایک نعرہ ہے
‎جو وہ بھی لگا تے ہیں جو سندھ کے جسم کو ایسے نوچتے ہیں جیسے لال بازار میں دلال صدا سہاگنیوں کے جسموں کو نوچتے ہیں،سندھ کوئی شاہ کا کلام نہیں،شاہ تو کیا اب سندھ تو حلیم باغی کا کلام بھی نہیں!
‎سندھ تو اب”بوسکی دا جوڑا ہے!“
‎سندھ اب مہران کی موجیں نہیں،سندھ اب لاڑ نہیں،کاچھو نہیں،اتر نہیں۔
‎اب سندھ تو ذوالفقار آباد ہے،بحریہ ٹاؤن ہے،ڈی ایچ اے سٹی ہے
‎سندھ اب کوئی درویشوں،صوفیوں کی دھرتی نہیں،سندھ اب بس ملک ریاض کی ملکیت ہے!
‎سندھ اب اعتزازاحسن کے دلائل ہیں
‎سندھ اب سینٹ کی وہ سیٹ ہے جس کو ہر بار سندھ کے نام پر ملک رحمان ریپ کر جاتا ہے
‎سندھ کالا پیسہ ہے،سندھ جوئا ہے،سندھ دھندہ ہے پر گندہ ہے
‎سندھ یاری باشی ہے،سندھ دوستی ہے سندھ دوستی میں دی گئی کنیز ہے۔

‎اب سندھ آریسر کا سفر نہیں،اب سندھ آریسر کی برداشت نہیں،اب سندھ آریسر کا بے دریغ مطالعہ نہیں اب سندھ بس لالچ ہے،دھونس ہے دھوکہ ہے
‎اب سندھ دعا نہیں،اب تو سندھ گالی ہے بہت بڑی گالی!
‎اب سندھ عشق نہیں
‎اب تو سندھ سودے بازی ہے
‎کبھی وہ کرتے ہیں،کبھی یہ!
‎اب سندھ تھر کے کیکڑے کا جھولتا سفر نہیں
‎اب تو سندھ مس کال ہے بس مس کال!
‎یہاں سے مس کال آئی اور وہاں سے سارا سفر ختم
‎اب سندھ کوئی محبت نہیں
‎اب تو سندھ سستا موبائل پیکج ہے اب سندھ کوئی بھیگتی رات نہیں
‎اب تو سندھ سراسر زیاں ہے دنوں کا بھی اور راتوں کا بھی
‎اب سندھ میں دھرتی سے عشق نہیں ہوتا یہ تو قصہ پارینہ ہو
‎اب تو سندھ میں سودے بازی ہو تی ہے کوئی بھی پیسہ دے اور سب کچھ لے لے۔

‎اب سندھ میں کوئی دودو،دولھا دریا خان،ہیموں کالانی،ہوشو شیدی نہیں
‎اب تو سندھ ملک ریاض،ملک اسد سکندر،اور زردا ری ہے
‎سید کے بعدسندھ عبدالواحد آریسر جیسا عشق نہیں پر امیر آزاد جیسا پرندہ ہے جو سندھ کے دوام میں نہیں پھنستا اور جہاں اپنا محفوظ مستقبل سمجھتا ہے اس شاخ پر اُڑ ر بیٹھ جاتا ہے
‎جب کہ سید کا عاشق آریسر اسی شاخ پر بیٹھا رہتا ہے بھلے وہ شاخ کٹ ہی کیوں نہ جائے
‎سید کے بعد سندھ وہ جیل خانہ بن گیا ہے جس میں عاشقوں کی روحیں مقید ہیں
‎اور لوفر آزاد ہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں