ہم پوچھیں گے اور لازم ہیکہ ہم پوچھیں
تحریر: شفیق الرحمٰن ساسولی
دی بلوچستان پوسٹ
یہ نامعلوم کا تماشہ کب تک جاری رہےگا؟ کب تک مظلوموں کا خون بہتارہیگا؟ کب تک بلوچستان کے مجبور و لاچار بلوچ، ہزارہ اور پشتون تحفظ کی نام و نہاد چار دیواری میں حیوانیت کا شکار ہوتے رہیں گے؟ اس دھرتی کے باسی کب تک غربت و بےچارگی کی زندگی گذارتے رہیں گے؟ کب تک ملّت سرمائے کے ہاتھوں فروخت ہوتی رہےگی؟
کب تک ہم نامعلوم کے ہاتھوں اغواء و شہید ہوتے رہیں گے؟ کب تک؟
ہماری بے خبری کہیں یا بے بسی و بے وقوفی ہم اپنے قاتلوں کو نامعلوم کا نام دیکر ہمیشہ سے مُقتدر قوتوں سے انصاف کی توقع کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن اب بات ہوگی تو شیرِ خدا مولا علی کے قول کےمطابق ہوگی۔
حضرت علی کا قول ہیکہ ” جس مقتول کا قاتل نامعلوم ہو اس کا قاتل حاکمِ وقت ہوتا ہے”۔
تو قاتلِ وقت (یعنی حاکمِ وقت) سن لو! نواب نوروز خان و پرنس عبدالکریم خان کے وارثان آج تم سے کہہ رہے ہیں!
اسدجان مینگل کے اغواء کار تم ہو، اکبرخان بگٹی کے قاتل تم ہو، توتک میں زندہ درگور سینکڑوں افراد کے قاتل تم ہو، ہزاروں لاپتہ بلوچ فرزندوں کے اغواء کار تم ہو، شہیدحیات بلوچ، بانک کریمہ بلوچ کے قاتل تم ہو، شہیدملک ناز کے قاتل تم ہو، ہمارے ننگ و ناموس کو لوٹنے والے تم ہو، ہمارے تشخص کو مٹانے کے درپے تم ہو، مچھ میں ہزارہ برادری کے 11 کان کنوں سمیت سینکڑوں پشتون اور ہزارہ کے قاتل تم ہو۔
قاتلِ (حاکمِ) وقت! تم نے بلوچستان کو باقاعدہ جنگل کی شکل دے دی ہے، جہاں ہر درندہ اپنے مزاج اور طاقت کے حساب جو میسر ہو لوٹ رہا ہے۔ یہاں سب کے کاروبار الگ، سب کی تربیت الگ، سب کے دھندے الگ، مشترکہ انسانی فلاح و بہبودی نظریے سے کسی کو کوئی واسطہ نہیں۔ اور ذاتی غصہ، انا اور ذاتی نظریات کے لئے قتل تک جائز ہے۔
ہزاروں بلوچ فرزندوں کی شہادت، ملک ناز کے قتل اور حیات بلوچ کی سفاکانہ قتل، ہزاروں پیرو جوان بلوچوں کی بےگُواہی، کریمہ بلوچ کی شہادت اور کئی مصائب و مظالم جو بیاں سے باہر ہیں، مجبوری مگر یہ بھی ہے کہ ہم کھل کے رو بھی نہیں سکتے، آواز اٹھانہیں سکتے، کیوں کہ اپنوں کیلئے آواز اٹھانا بھی جرم بن چکاہے؟
حیرت کی بات یہ ہیکہ قاتلین(حاکمین)! 70 سال سے بلوچ پر حکومت کرتے ہوئے تمہیں سمجھ نہیں آئی کہ بلوچ عزت کے دلدادہ ہیں، بلوچ تشخص اور غیرت پر مر مٹنے والے ہیں، سب بلوچ اس ہجوم کی طرح بالکل بھی نہیں ہیں جو اپنے بچوں کی لاشوں سے زیادہ حاکمِ وقت کے بوٹوں یا ٹوپی میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ذِی عقل بلوچ تمہاری اس ہجوم والوں، اپنوں کو اذیت دینے والوں کے سامنے اب عقل کی بات نہیں کرتا، بس ان کے سامنے کوئی عقل کی بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کی مترادف ہے۔ یہ بین ایک عرصے سے بجائی جارہی ہے مگر بھینس تو بھینس ہے اس کو کیا فرق پڑنے والا۔
اس سے بھی زیادہ حیرت ایک اور حرکت یا تماشے کی ہے۔ جس کسی پر حملہ ہو یا کوئی اندوہناک قتل کی واردت قاتلِ(حاکمِ) وقت! تم وہاں پہنچ جاتے ہو، ندامت کا شائبہ تک چہرے پر موجود نہیں ہوتا اور یہ آپ کا لایا ہوا غلام ہجوم وہاں پہنچ کر شقی القلبی کا مظاہرہ کررہا ہوتاہے آپ کی آمد کو باعثِ فخر سمجھ رہاہوتاہے، بجائے متاثرہ خاندان کو سننے کے تم ان غلام ہجوم کی خوشامدی کامزہ لےرہے ہوتے ہو، حاکمِ وقت! آپ اصل مجرم ہیں آپ کسی متاثرہ گھر پر آتے ہو اگر واقعی میں انصاف فراہم کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہو اور اگر کسی کو آپ سے کوئی توقع ہوتاہے تو ان سے عرض ہیکہ آپ کے گریبان تب تک پکڑے رہیں جب تک ان کی مکمل دادرسی نہ ہو۔
حاکمِ وقت! آپ کی کارکردگی کیا ہے؟ آج جب آپ مچھ واقعہ پر انصاف فراہم کرنے کا وعدہ کررہے ہو تو ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ اس سے پہلے آپ نے کس کو انصاف فراہم کیا ہے؟ آپ نے حیات بلوچ سمیت ہزاروں بلوچ، ہزارہ اور پشتون شہیدوں کو کون سا انصاف فراہم کیا ہے جو اب گیارہ شہید کان کنوں کو انصاف دلاوگے؟
اب ہم ہمت نہیں ہاریں گے، یہ سب پوچھیں گے، مسلسل پوچھتے رہیں گے، غلام ابن غلام ابن غلام ہجوم کی خوشامدی کی مستحق لوگو! تمہیں وہ ہجوم مبارک ہو۔ ہماری تربیت میں سوال کرنا شامل ہے، سیاسی جہد اور سیاسی مزاحمت شامل ہے۔ ہم پوچھیں گے کہ ہمارے لاپتہ لوگ کہاں ہیں؟ ہم پوچھیں گے ہمارے لوگوں کو کیوں ماراجارہاہے؟ ہمارے وسائل کو کیوں لوٹا جارہاہے؟ ہم سے ہماری تشخص کیوں چھینی جارہی ہے؟ ہم پوچھیں گے اور لازم ہیکہ ہم پوچھیں۔
حاکمِ وقت! حضرت علی کا قول پیشِ خدمت ہے کہ ” جس مقتول کا قاتل نامعلوم ہو اس کا قاتل حاکمِ وقت ہوتا ہے”۔
لہٰذا *جب تک تم نامعلوم قاتلوں، اغواء کاروں کو گرفتار نہیں کرتے، ہمارے مغویوں کو منظرِعام پر نہیں لاتے، تب تک تم قاتل ہو، تب تک تم اغواء کار ہو۔ تب تک تمہیں قاتل کہیں گے قاتل لکھیں گے، اغواء کار کہیں گے اغواء کار لکھیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں