کریمہ محبت ہے بلوچ آنکھوں کی – محمد خان داؤد

166

کریمہ محبت ہے بلوچ آنکھوں کی

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

”اُس نے کہا
جب دریاؤں کا پانی بڑھ کر دریاؤں کی سطح کو ڈھانپ دے
جب انسان سمندروں کی موجوں پر گندم اور جو کی فصلیں اُگائیں
اور کاٹنے لگیں
جب سورج کی روشنی اندھیرے میں بد ل جائے
جب چاند ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گر پڑے
پھر اس وقت میرے لیے بھی جائز ہوگا کہ تم سے منہ موڑ لوں
اور تجھے بھی یہ حق ہوگا کہ تو مجھے بھول جائے
اے بلقیس۔۔۔۔اے میری محبت“

یہ تو یونانین کے ادیب نے اپنی محبت کے لیے شرطیں لکھی ہیں کہ وہ کب اسے یاد کرے اور کب اسے بھلا دے کب اس کے قریب آئے کب اس سے دور رہے۔کب اس کی محبت میں شرسار رہے اور کب اس سے منہ موڑ لے۔کب اس کی قربت میں رہے اور کب اس سے کنارہ کرے
پر بلوچ دھرتی کی محبت بانک کریمہ سے بلکل اس سے ہٹ کر ہے
جیسی محبت کریمہ نے بلوچ دھرتی سے کی ہے ویسی ہی محبت آج بلوچ دھرتی کریمہ سے نبھا رہی ہے
اگر کریمہ اُوس بن کر بلوچ دھرتی پر برسی ہے
تو بلوچ دھرتی بارشوں کی پھوار بن کر بانک کریمہ پر برس رہی ہے
اگر بانک نے بلوچ دھرتی کو اپنی د میں سمویا تھا
تو آج بلوچ دھرتی نے اپنی آنکھیں واہ کی ہوئی ہیں
اگر بانک بلوچ دھرتی پر جہاں جہاں پر چلی اور جہاں جہاں بانک کے قدم پڑے
اور بانک نے چاہا کہ وہاں سرخ پھول کھل اُٹھیں تو وہ دھرتی آپ ہی سمٹ کربانک کریمہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جہاں جہاں بانک نے بلوچ دھرتی کو اپنی زبان سے ادا کیا اس سے کہیں بڑھ کر بلوچ دھرتی بانک کریمہ کی قصہ گوئی کر رہی ہے۔ بانک نے بلوچ دھرتی کے لیے نظمیں لکھیں تو بلوچ دھرتی بانک کو تاریخ میں رقم کر رہی ہے، بانک نے بلوچ دھرتی کے قومی گیتوں پر ادب سے کھڑی رہی تو آج بلوچ دھرتی اسے سلامی پیش کر رہی ہے۔بانک نے اپنے بدن پر بلوچی پوشاک کو عزت بخشی تو آج دھرتی نے بانک کو اپنے پرچم کی بانہوں میں لے لیا۔ بانک نے بلوچ دھرتی کا پرچم ہمیشہ ہمیشہ بلند رکھا آج وہ پرچم آپ ہی نم نیدہ نم نیدہ ہے اور آپ ہے بانک سے لپٹا ہوا ہے!

بانک نے جہاں جہاں دھرتی کے شہیدوں کی تصویروں پہ پھول رکھے
آج دھرتی نے بانک کی قبر کو پھولوں سے ڈھک دیا ہے
بانک نے جہاں جہاں دھرتی کے شہیدوں کے تصور میں شمعیں روشن کیں
آج پو ری دنیا میں بانک کریمہ کے تصور میں شمعیں روشن کی جا رہی ہیں
جہاں جہاں ظلم کے خلاف بانک کریمہ نے اپنے ہاتھ بلند کیے
وہاں وہاں آج بانک کریمہ کے کے المناک موت پر ہاتھ بلند ہو رہے ہیں
کریمہ!دھرتی پر اُوس بن کر برسی
اور آج دھرتی آنسو بن کر بانک کریمہ کی قبر پر برس رہی ہے
کریمہ نے دھرتی کے شہیدوں کی یادوں کو خوشبوؤں سے معطر کیا
آج بلوچ دھرتی کریمہ کی یاد کو مہکا رہی ہے
کریمہ نے عزت کی نگاہ سے بلوچ دھرتی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ایسے جیسے کوئی معصوم بیٹی اپنی عظیم ماں کو دیکھا کرتی ہے
آج بلوچ دھرتی محبت کی آنکھوں سے بانک کریمہ کو دیکھ رہی ہے ایسے جیسے کوئی عظیم ماں اپنی معصوم بیٹی کو دیکھا کیے ہے
کریمہ کا بلوچ دھرتی سے ماں کا رشتہ تھا
اور آج بلوچ دھرتی کریمہ سے بیٹی کا رشتہ نبھا رہی ہے
کریمہ نے دھرتی کے عشق کو سلامی دی تھی
آج بلوچ دھرتی کی تاریخ کریمہ کو سلامی دے رہی ہے

کریمہ!گوادر کے مقبوضہ بندر گاہ پر لنگر انداز نہیں ہوئی
کریمہ!بلوچ دھرتی کے دل پر لنگر انداز ہوئی ہے
بندر بھی ایسا!
دل بھی ایسی!
جس کے لیے سندھی بولی میں ایک شاعرانہ اصطلاح ہے کہ
”دل جے کیٹی بندر تے!“
یعنیٰ کہ
”مظلوم بندر گاہ پر
معصوم دل کی آمد!“
ایسے ہے کریمہ کی بھی مظلوم دھرتی کے معصوم دل پر آمد ہوئی ہے!
اور مظلوم دل نے آگے بڑھ کر اپنی معصوم دل والی دنیا کی سب سے خوبصورت سیا سی کارکن کی راہ میں آنکھیں بچھا دیں ہیں اور وہ آنکھیں آنسوؤں سے نم ہیں!
کریمہ کی محبت بلوچ دھرتی سے اور بلوچ دھرتی کی محبت بانک کریمہ سے ان شاعرانہ باتوں سے بہت آگے کی ہے کہ
”اُس نے کہا
جب دریاؤں کا پانی بڑھ کر دریاؤں کی سطح کو ڈھانپ دے
جب انسان سمندروں کی موجوں پر گندم اور جو کی فصلیں اُگائیں
اور کاٹنے لگیں
جب سورج کی روشنی اندھیرے میں بد ل جائے
جب چاند تکڑے تکڑے ہوکر گر پڑے
پھر اس وقت میرے لیے بھی جائز ہوگا کہ تم سے منہ موڑ لوں
اور تجھے بھی یہ حق ہوگا کہ تو مجھے بھول جائے
اے بلقیس! اے میری محبت!“

پر!کریمہ کی محبت بلوچ دھرتی سے اور بلوچ دھرتی کی محبت اماں کریمہ سے ایسی ہے کہ
”اُس نے کہا
جب دریاؤں کا پانی بڑھ کر دریاؤں کی سطح کو ڈھانپ دے
جب انسان سمندروں کی موجوں پر گندم اور جو کی فصلیں اُگائیں
اور کاٹنے لگیں
جب سورج کی روشنی اندھیرے میں بد ل جائے
جب چاند تکڑے تکڑے ہوکر گر پڑے
میں اس وقت بھی تمہیں یاد رکھوں کی میری بیٹی
اور تجھے بھی یہ حق ہوگا کہ تو میرے ساتھ ایسے ہی لپٹی رہے جیسے
دودھ پیتے بچے ماؤں کی چھاتیوں سے چمٹے رہتے ہیں
اے میری کریمہ۔۔۔اے میری محبت!“
کریمہ تو اک خوشبو بن کر لوٹی ہے
کریمہ تو اک اُمید بن کر لوٹی ہے
کریمہ تو نیا سویرہ بن کر ابھری ہے
کریمہ تو جدو جہد کی نئی علامت بن کر آئی ہے
کریمہ تو شہیدوں کی تاریخ کا نیا تسلسل ہے
کریمہ تو وہ روح بن کر وٹی ہے جس سے آزادی کی تحریک میں نئی جان پڑ گئی ہے۔

کریمہ تو مقبوضہ بلوچستان کا نیا کیس بن کر لوٹی ہے
جسے تاریخ پڑھی گی اور تاریخ ہے فیصلہ دے گی
کریمہ آپ ہی دھرتی کا دل؎
اور آپ ہی کیٹی بندر ہے
کریمہ ”د ل جے کیٹی بندر تے!“ کی مسافر ہے
کریمہ محبت ہے
دیس کی بلوچ دلوں کی
بلوچ آنکھوں کی
بلوچ تحریک کی
بلوچ نینوں کی


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں