کریمہ بلوچ مبینہ قتل کیس کو ایک مہینہ مکمل، سوشل میڈیا پر کمپئین ٹاپ ٹرینڈ

436

کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کو ایک مہینہ پورے ہونے پر آج سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ #JusticeForKarimaBaloch پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ پر رہا، صارفین نے اپنے ٹوئیٹس میں کینیڈا کے وزیر اعظم سمیت پولیس کو ٹیگ کرتے ہوئے کریمہ بلوچ کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

معروف بلوچ خاتون رہنماء اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ جو گذشتہ سال دسمبر کے بیس تاریخ کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے پراسرار طور پر لاپتہ ہوئی تھی اور اگلے روز ایک جھیل سے ان کی لاش برآمد ہونے پر بلوچستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں احتجاج اور ریلیاں ہوئی۔

سوشل میڈیا کپمئین کا اعلان بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کی گئی جس میں دنیا بھر سے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ لیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کریمہ بلوچ کے مبینہ قتل پر دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بڑے اور چھوٹے شہروں میں احتجاجی مظاہرے ریکارڈ کرا چکی ہے۔

کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کو بلوچ قوم پرست حلقے اور کئی انسانی حقوق کے ادارے ریاستی قتل قرار دے چکے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن پاکستان اسمبلی سردار اختر مینگل نے بھی کریمہ بلوچ کی قتل کو ریاستی خفیہ اداروں کی کارستانی قرار دیا تھا۔

پاکستان سمیت دنیا بھر سے بلوچ، سندھی پشتون اور دیگرا اقوام سے وابستہ مختلف مکاتب کے لوگوں نے اپنے ٹوئیٹس میں کریمہ بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کینیڈین حکومت سے مطالبہ کیا کہ صاف شفاف تحقیقات کرکے قاتلوں کو بے نقاب کرکے کریمہ بلوچ کو انصاف دی جائے۔

نامور لکھاری محمد علی تالپور نے کہا کہ وہ اب تک ہمارے ساتھ ہے وہ مر نہیں سکتی، مزاحمت کی علامت تھی۔

بلوچ طالب علم رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ تمام محکوم اقوام کی آواز تھی۔ آئیں انکی آواز بن کر اور انکے نظریہ کی پیروی کرکے ایک پرامن اور خوشحال سماج بنائیں۔

اسی طرح بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ نے کہا کہ کریمہ بلوچ کا فلسفہ اب بھی نوجوانوں کی رہمنائی کررہی ہے۔ جبکہ بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس فتح بلوچ نے ٹوئیٹ کرتے کہا کہ کینیڈا بلوچستان کی بیٹی کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی جس کو کینیڈا میں پناہ ملی تھی اور اب وہ منصفانہ تحقیقات میں ناکامی کا سامنا کررہے ہیں۔