وہ دیس کے درد میں جل رہے ہیں – محمد خان داود

198

‎وہ دیس کے درد میں جل رہے ہیں!

‎تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

‎بلغاریہ کے کہانی کار نے ایک جملہ لکھا کہ
‎”انسان جیتا نہیں،جلتا ہے،اور جلتا ہے وہ بھی اکیلا!“
‎وہ بھی پہاڑوں کے دامنوں میں جی نہیں رہے،جل رہے ہیں اور وہ بھی اکیلے!
‎وہ کیوں جل رہے ہیں؟
‎اس سوال کے جواب میں کوئی فلسفہ نہ تلاشہ جائے پر اس سوال کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ
‎”دیس کی محبت میں!“
‎وہ پہاڑوں کے دامنوں میں دیس کی آزادی کے لیے جل رہے ہیں
‎کبھی پتنگے بن کر کبھی پرچم بن کر
‎وہ جی نہیں رہے،وہ تو جل رہے ہیں
‎وہ جانتے ہیں کہ وہ غلام دھرتی پر جی نہیں سکتے،وہ جانتے ہیں کہ غلاموں کو دھرتی اپنے چرنوں میں جگہ نہیں دیتی،وہ جانتے ہیں کہ جہاں دھرتی آزاد نہیں وہاں محبوبہ کا بوسہ بھی آزاد نہیں،وہ جانتے ہیں کہ غلام دھرتی پہ محبوبہ کا بوسہ نہیں لیا جاتا،وہ جانتے ہیں کہ غلام دھرتی پہ محبوبائیں محبت نہیں جنتیں،وہ جانتے ہیں کہ غلام دھرتی پہ محبوبہ کو بانہوں میں نہیں لیا جاتا،وہ جانتے ہیں کہ غلام دھرتی پہ عشق کے سبق نہیں پڑھے جا تے، جب دھرتی غلام ہو تو ہواؤں سے لیکر سرخ لبوں کے بوسوں تک سب غلام ہو تے ہیں ایسے میں کوئی کسی کو بوسہ کیوں کر دیگا؟

‎اس لیے بلغاریہ کے کہانی کارکا یہ جملہ
‎”انسان جیتا نہیں،جلتا ہے،اور جلتا ہے وہ بھی اکیلا!“
‎ان کے لیے ہی ہے جو اس دل چیردینے والی سردی میں بھی اپنی محبوبہ کی بانہوں میں نہیں ہیں پر ان پہاڑوں کے دامنوں میں ہیں جہاں وہ اپنے سرپتھر پہ رکھ کے سوتے ہیں ان کے سروں کے نیچے کوئی نرم و ملائم تکیہ نہیں ہوتا کہ وہ اس پہ سر رکھ کر محبت کے سپنے دیکھیں نہیں ایسا کچھ نہیں وہ ان پتھروں پہ سر رکھ کر دیس دل کی آنکھ سے دیس کی آزادی کا خواب دیکھتے ہیں
‎جہاں ہوائیں بھی آزاد ہوں
‎انسان
‎سپنے
‎اور خواب بھی آزاد ہوں
‎جھرنے
‎ندی
‎نالے
‎اور آبشار بھی آزاد ہوں

‎وہ ان پہاڑوں میں آزاد سمندر کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ ان پہاڑوں میں آزاد پہاڑوں کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ ان پہاڑوں میں آزاد شاہراؤں کی جنگ لڑ رہے ہیں،وہ ان پہاڑوں میں آزاد آبشاروں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ ان پہاڑوں میں آزاد وسائل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ ان پہاڑوں میں اس بات کی جنگ لڑ رہے ہیں کہ ان کسی پہاڑ پر کوئی ایٹمی تجربہ نہ کیا جائے۔ وہ ان پہاڑوں پہ یہ جنگ لڑ رہے ہیں کہ اب کسی بھی نام پر ان کے وسائل نہ لوٹے جائیں، وہ ان پہاڑوں میں یہ جنگ لڑ رہے ہیں کہ کسی بھی پہاڑ کو چیر کر وہاں سے کسی رکوڈک جیسا پروجیکٹ نہ چلایا جائے، وہ ان پہاڑوں میں یہ جنگ لڑ رہے ہیں کہ کسی بھی بندر گاہ کو کسی باڑ کے حوالے نہ کیا جائے، وہ ان پہاڑوں میں یہ جنگ لڑ رہے ہیں کہ اب کسی بھی پہاڑ کو چیر کر کاٹ کر کسی نئے پروجیکٹ کا نام دے کروہاں سے کسی کو نہ گزارا جائے۔

‎وہ ان پہاڑوں میں اپنی،اپنی دھرتی کی اور اپنے دیس کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں
‎اس لیے بلغاریہ کے کہانی کار کی یہ بات کہ
‎”انسان جیتا نہیں،جلتا ہے،اور جلتا ہے وہ بھی اکیلا!“
‎ان پر بالکل صادق آتی ہے جو اپنے کچے مکانوں سے دوربہت دور وہاں پر ہیں جہاں پر سوائے پہاڑوں کے اور کچھ نہیں
‎ان کے دوست آزادی کے گیت اور پہاڑ ہیں
‎ان کے دوست ان کی محبت کی یادیں اور بھولے بسرے گیت ہیں
‎ان کے دوست ان کے جیبوں میں پڑے محبوباؤں کے فوٹو اور ان کے گلابی اردو میں لکھے خطوط ہیں
‎ان کے دوست پتھر اور پہاڑی پھول ہیں
‎ان کے دوست کچھ نام اور کچھ چہرے ہیں
‎ان کے دوست ادھ جلے سگریٹ اور آزاد دیس کی آزاد فضائیں ہیں
‎ان کے دوست ان کی آنکھیں اور ان میں موجود سپنے ہیں
‎ان کے دوست ان پہاڑوں پہ موجود پہاڑی پنکھ اور پہاڑی پھول ہیں
‎اور وہ آواز جو ان کی اپنی ہے
‎جو پہاڑوں کی اُوٹ سے ٹکرا کر پھر ان کے کانوں میں گونجتی ہے
‎وہ اپنے،آپ کے دوست ہیں.
‎وہ دھرتی کے دوست ہیں
‎اور آزادی ان کی محبوبہ ہے
‎وہ بندوقوں کے شور میں سوتے ہیں

‎اور نرم و ملائم برف کے زروں سے جاگ جا تے ہیں جب وہ برف کے زرے ان کے چہروں پہ برستے ہیں وہ خواب سے ایسے جاگ جا تے ہیں کہ جیسے محبوبہ نے اپنے ہونٹ ان کے ہونٹوں پہ رکھ دیے ہوں اور وہ اس ٹھنڈک کو روح تک محسوس کر کے جاگ گئے ہوں
‎انہیں دیس
‎آزادی
‎اور بندوق سے پیار ہے
‎اس لیے وہ اپنے لبوں پر دیس کے گیت
‎اپنی بولی میں آزادی کے نعرے
‎اور اپنی بندوق کو شالوں سے لٹکا کر چلتے ہیں
‎وہ آزاد دیس کے آزاد سرمچار ہیں
‎وہ دیس جیسے ہیں
‎وہ آزاد دیس کے آزاد سپنے جیسے ہیں
‎ان کی آنکھوں میں ایسے خواب ہیں جن خوابوں کو ابھی تعبیر ملنی ہے
‎وہ پہاڑوں پہ پڑے دیس کے حسین خواب ہیں
‎اس لیے وہ ان پہاڑوں میں دئیے کی ماند جل رہے ہیں جن پہاڑوں پر یا تو آزاد پنکھ جا سکتے ہیں
‎یا پھر سرمچار!
‎وہ ایسے ہیں جن کے لیے بلغاریہ کے کہانی کار نے لکھا کہ
‎”انسان جیتا نہیں،جلتا ہے،اور جلتا ہے وہ بھی اکیلا!“
‎وہ پہاڑوں پہ آزدی کا استعارہ بن کر جل رہے ہیں
‎جل جل جل مشعل جل


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں