میں تشنہ کہاں جاؤں؟
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
وہ واصف ِ بسمل تھی، وہ رونق محفل تھی، وہ سدا کی مسافر نہ تھی، وہ ایک ٹوٹا ہوا دل نہ تھی، وہ شہر میں ویرانہ نہ تھی، وہ تو نعرہِ مستانہ تھی!وہ تو شوخی ِ رندنہ تھی، وہ تشنہ نہ تھی!اس کے ہاتھوں میں کتابیں ہو تی تھیں، وہ سرِ شام ان کتابوں کو پڑھا کرتی تھی، وہ اپنی ماں کے ہاتھوں کا پراٹھا کھا کر صبح صبح کالج جایا کرتی تھی،اس کی صبح اور شام ایسی ہی ہوا کرتی تھی جیسی باقی لڑکیوں کی ہوا کرتی ہیں، پڑھنا، گھر میں بھائیوں سے لڑنا اور رات کو ڈرامے دیکھنا
پر اب نہ تو اس کی صبحیں ایسی ہیں
اور نہ شامیں
اب تو اس کے لیے تعلیمی اداروں کے در بند ہیں
اور نہ ہی اس کے ہاتھوں میں کتابیں ہیں
اب نہ تو ماں اسے صبح صبح پراٹھہ بنا کر دیتی ہے اور نہ ہی یہ اپنے ہاتھوں میں کتابیں لیے کالج جاتی ہے
نہ ہی یہ گھر میں بھائی سے لڑتی ہے، نہ تو گھر میں اپنے بستر پہ سوتی ہے اور نہ ہی رات دیر تک ڈرامے دیکھتی ہے
اب تو کچھ بھی پہلے جیسا نہیں
کچھ بھی نہیں
نہ گھر پہلے جیسا
نہ گلیاں پہلے جیسی
نہ ماں پہلے جیسی
اور نہ وہ پہلے جیسی
اور بھائی کا کیا کہنا؟
بھائی کا تو معاملہ ایسا ہے جس کے لیے لطیف نے لکھا تھا کہ
”محبت ماریو آھے معامرے
نہ تہ کیر کشالہ کڈھے؟“
اس لیے اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں
وہ اتنا چلی ہے،جتنا بھٹائی بھی نہیں چلا ہوگا اور وہ اتنی دکھی ہے جتنا گوتم بھی کیا دکھی ہوگا اور اس کی آنکھوں میں اتنے بادل ٹہرے ہوئے ہیں کہ بلھے شاہ کی آنکھوں میں بھی کیا اشک ہونگے،آج اگر تمر ہوتا تو وہ اس کی جو تی نہیں اٹھا پاتا؛ لطیف کی جو تی تو بس سفر سے بھاری تھی، پر اس کی تو جوتیاں سفر، دکھ، درد سے بھا ر ی اور آنکھوں کی نمناکی سی گیلی گیلی ہیں اتنے بڑے سندھ میں اسے کوئی تمر میسر نہیں جو اس کی گیلی جوتیاں اُٹھائے اور تمر کے جیسے اس کی آہ نکل جائے اور وہ تمر کے جیسے سوال بھی کرے کہ
”ادی ایسی بھاری اور گیلی جوتی“
تو وہ لطیف کاجواب نہ دھرائے کہ”اس میں سفر بھی تو ہیں!“
پر وہ اسے کہے کہ”اس میں آنکھوں کے اشک بھی تو ہیں!“
ان دردوں بھرے سفروں اور روتی آنکھوں کے اشکوں سے پہلے اسے کون جانتا تھا؟
پر اب اسے سب جانتے ہیں!
سچ کہتے ہیں کہ مشہوری موت ہے
وہ اب مشہور ہے بہت زیا دہ پر کیا وہ مشہو ر ی اسے گھر بیٹھے ان کتابوں اور ڈراموں نے د ی ہے جو وہ رات گئے پڑھتی اور رات گئے دیکھا کرتی تھی؟
اسے مشہو ری تو موت کے بدلے ملی ہے
جیسے عیسیٰ کو مصلوب ہونے کے بعد ملی
صلیب سے چڑھنے سے پہلے تک عیسیٰ کو کون جانتا تھا؟
ایک مریم؟
ایک یروشلم؟
ایک گھر؟
کچھ گلیاں؟
پر جب عیسیٰ مصلوب ہوا تو اسے میں بھی جانتا ہوں اور تم بھی
مشرق بھی اور مغرب بھی
عیسیٰ بھی تو موت سے ہمکنار ہوا نہ؟
عیسیٰ موت سے مل کر یسوع ہوا
اب تو سب یسوع کی صلیب کو اپنے سینے پر سجاتے ہیں
قاتلانِ مسیح بھی
اور عاشقانِ مسیح بھی
وہ بھی تو موت سے مل کر شازیہ بنی ہے۔ اس کے پیر تھکے تھکے سے ہیں،اس کے نین گیلے گیلے سے ہیں،اس کے بال اُلجھے اُلجھے سے ہیں،اس کے ایک ہاتھ میں عاقب چانڈیو کی میلی سے مٹتی تصویر ہے اور دوسرے ہاتھ میں اس ماں کا ہاتھ جو وہ اپنے ساتھ رکھتی ہے
سفر میں بھی
اور ہجر میں بھی
کافی وقت سے شازیہ کے ساتھ تو دو ہی معاملات رہے ہیں
سفرِ یاراں
اور ہجرِ یاراں
اور ان دونوں میں وہ اپنی ماں کو اپنے ساتھ رکھتی آ رہی ہے
لطیف کے تو دو پیر دُکھتے تھے،دو پیر سفر کرتے تھے،ایک دل ملال میں رہتا تھا اور دو نین بہتے تھے
پر شازیہ کے ساتھ ایسا ہر گز نہیں ہے
شازیہ کے ساتھ ایسا ہے
جیسا عیسیٰ کے ساتھ تھا
شازیہ کے ساتھ ایسا ہے
جیسا مریم کے ساتھ تھا
شازیہ کے چار پیر دُکھتے ہیں
دو شازیہ کے،دو بوڑھی ماں کے
شازیہ کے چار نین بہتے ہیں.
دو شازیہ کے،دو بوڑھی ماں کے
ایسے ہی جیسے دو عیسیٰ کے پیر دو مریم کے
دو نین مریم کے دو عیسیٰ کے
عیسیٰ سندھ کا عاقب تھا
اور عاقب یروشلم کا یسوع!
مریم سندھ کی شازیہ تھی
اور شازیہ یرو شلم کی مریم
آج یروشلم کی مریم جیسی سندھ کی شازیہ کا جنم دن ہے
وہ کہاں جائے؟
وہ کس سے کہے؟
کہ اس کے بھائی کو تلاشہ جائے
ایسی متلاشی بہن کو
جو خود بھی تشنہ ہے
جنم دن مبارک!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں