میری بہادر ہزارہ بیٹیوں کو سلام!
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
سلام ان بیٹیوں کو جن کے سامنے اپنے جواں مرد باپوں کے گھائل لاشیں پڑی ہوئیں ہیں اور وہ بیٹیاں اپنے تمام تر خوابوں کے ساتھ ان لاشوں پر گونگی زباں میں بیِن کر رہی ہیں۔
سلام ان بیٹیوں کو جن کے خواب اس ظالم سردی میں ان میتوں کے سرہانے رکھے ہوئے ہیں جن میتوں کے پروسے کے لیے شیخ رشید اسلام آبا د سے پہنچے پر نہ تو وہ درد کو جان پائے اور نہ وہ زخمی میتیں ہی قبروں میں جگہ بنا پائیں۔
سلام ان بیٹیوں کو جو بہادر ہیں جو جو سچی ہیں جو درد کے درمیاں جی رہی ہیں!
سلام ان بیٹیوں جو جب ان کے کانوں نے ایسی خبریں سنیں کہ ان کے پیا رے مارے گئے
بھونکتی بندوقوں کا شکار ہوئے اور جلد یا بدیر وہ وہاں لے جائیں گے جہاں مٹی ہی مقدر ٹہرتی ہے تو ان بہادر بیٹیوں نے اپنے آنچلوں کو پرچم بنا ڈالا اور باہر نکل آئیں۔
سلام ان بہادر بیٹیوں کو جواپنے باباؤں کے خواب جیسی ہیں پر وہ اب ان آنکھوں کے درمیاں بیٹھی ہیں جو آنکھیں قیامت تک نہ کھلیں گیں
سلام ان بہادر بیٹیوں کو جن کے ہاتھوں میں درد سے لکھے بینر
ماتھے پر درد سے لکھی پٹیاں اور زباں پر ایک ہی بات ہے کہ
”کیا ہم پاکستانی شہری نہیں اگر ہم پاکستانی شہری ہیں تو ہر بار ہم ہی مقتل سے کیوں ہو آتے ہیں؟!“
سلام ان بہادر بیٹیوں کو جن کی آنکھوں میں درد کا آنسو آکر ٹھہر سا گیا ہے
وہ رونا چاہتی ہیں
وہ بہت رونا چاہتی ہیں
پر بعد از تدفین
اس وقت وہ روئیں بھی تو کس کہ سامنے؟
سلام ان بہادر بیٹیوں کو جو اس درد اور دکھ کی کیفیت میں یہ سمجھتی ہیں کہ
”پختون ان کے بھائی ہیں بلوچ ان کے بھائی ہیں!“
سلام ان بہادر بیٹیوں کو جن کے خواب سرکا ر کی نالائقی کی نظر ہوئے
جن خوابوں پر سرکا ری میڈیا میں کوئی ذکر نہیں.
اور پے رول پیڈ شدہ دانشور نظم کیا پر ایسے خوابوں کی تباہی پر نثر بھی نہیں لکھ رہے
جبکہ وہ خواب نثر کیا،نظم کیا،پر وہ خواب تو نوحہ لکھنے کے لائق ہیں،وہ خواب خود نوحہ بن کر سامنے آ رہے ہیں پر کوئی نہیں جو ان خوابوں پر نوحہ خوانی کرے اور ڈیپ اسٹیٹ کو یہ بتانے کی کوشش کرے کہ
”خوابوں کو قتل مت کرو“
سلام ان بیٹیوں کو جن کا سب سکھ چین چھن گیا بھونکتی بندوقیں سب کچھ نگل گئیں پر وہ تمام درد کو یکجا کر کے کوئٹہ کے مغربی حصہ پر دھرنا اس لیے دیئے بیٹھی ہیں کہ
”درد کے درمیاں سے پہلے کوئی گھر جائے کیوں؟“
سلام ان بیٹیوں کا جن کے بابا ہی نہیں مارے گئے پر چلتی گولیاں اور تیز دھار آلے نے ان کتابوں کو بھی گھائل کیا ہے جو ان کے بابا کوئلے کی کان سے نکال لاتے تھے جسے کوئی بچی پڑھ کر اپنے خوابوں کو کچھ نزدیک سا محسوس کرتی تھی،وہ دلا سے ما رے گئے جو جوان اپنے بوڑھے باباؤں کو دیا کرتے تھے۔ وہ دوائیں ماری گئیں جنہیں وہ مزدور ہر ماں خرید کر ان ماؤں کو بھیجا کرتے تھے جن ماؤں کو یہ شکایت رہا کرتی تھی کہ انہیں نیند نہیں آتی کیا اب وہ مائیں سو پائیں گی؟!!
اس چلتی گولیوں وہ وہ سہارا مارا گیا جن سہاروں کو استعمال کر کے وہ بوڑھے والدین اپنے کو زندہ رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے اور بہت وقار سے اپنے دوستوں کو بتایا کرتے تھے کہ ان کا بیٹا اب اس کا سہارا بن گیا ہے اور اس نے اب پو رے گھر کو اپنے کاندھوں پر لے لیا ہے اب وہ بوڑھا بابا اپنے کچے گھر کی کچی دیوار میں دب رہا ہے وہ کچا مکاں اس پر آن گرا ہے پر وہ نہ تو شیخ رشید کو نظر آتا ہے اور نہ عمران خان کو!
ان بندوقوں نے مچھ کے پہاڑوں میں بس گیا رہ ہزارہ کو قتل نہیں کیا
پر ایسا حساب کون لگائے کہ
”گیارہ بہنیں
گیارہ بھائی
گیا رہ مائیں
گیارہ بوڑھے والد
گیارہ بیویاں
گیارہ رشتے
گیا رہ گھر
گیارہ بچے!“
پر یہ گیا رہ گیا رہ کا کوئی کھیل نہیں یوں تو گیا رہ درد بھی نہیں یہ تو ایسا درد ہے جس کے لیے لطیف نے”وتھان“لفظ کام میں لایا ہے یعنی کہ”لاتعدا درد!“درد کا ایک اصطبل!“
ایسے درد کو لیکر بھی ہزارہ مائیں اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ دھرنا دیے بیٹھی ہیں وہ جانتی ہیں کہ ان کی جان ایسے ہی ہے جیسے کسی یتیم بچے کا سر جب کسی نائی کا دل چاہا وہ اس پر بہت کچھ سیکھ لیتا ہے اور ہم اسی ریا ست میں دیکھ رہے ہیں کہ یہ ریا ست ان ہزارہ پر کب سے کیسے کیسے تجربات کر رہی ہے اور علمدار روڈ اور اس کے آس پاس کے قبرستان میں ایک دردوں کی تاریک دفن ہے
پراب کے بار ان ماؤں،بہنوں،اور بیٹیوں کو سلام کو حال سے بے حال ہیں جو دردوں سے چور چور ہیں جو رونا چاہتی ہیں پر رو بھی نہیں سکتیں جو ماتم کرنا چاہتی ہیں پر ماتم بھی نہیں کر سکتیں
جو بہت کچھ کہنا چاہتی ہیں پر نہیں کہ سکتیں
اس لیے وہ اپنی آنکھوں کے تمام آنسو روکے وہاں جمع ہیں جہاں
جہاں! درد میتوں کی شکل لیے سڑک کنا رے پڑا ہے
اور ان بہادر لڑکیوں نے اپنے آنچلوں کو پرچم بنا ڈالا ہے
اور وہ اس ریاست سے یہ پوچھ رہی ہیں کہ ان کے باباؤں کو کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا ہے؟
میری ان بہادر بیٹیوں کوسلام
میری بہادر ہزارہ بیٹیوں کوا سلام!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں