بلوچستان کی تحصیل مچھ میں کان کنوں کے قتل کے خلاف ہزارہ برادری کا میتوں کے ہمراہ مغربی بائی پاس پر احتجاج تیسرے روز میں داخل ہوگیا ہے۔ احتجاجی دھرنے میں شریک خواتین کی “عمران خان کوئٹہ آؤ” کے نعرے لگائے اور نوحہ خوانی کی۔
اتوار 4 جنوری بروز پیر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید بھی مظاہرین سے مذاکرات کیلئے کوئٹہ پہنچے۔ شیخ رشید کی سربراہی میں وفد نے دھرنا کے شرکاء سے مذاکرات کیے، تاہم وہ ناکام رہے۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے ہمراہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری اور صوبائی وزراء بھی موجود تھے۔ احتجاج کے شرکا کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ کی سربراہی میں آنے والے وفد کی یقین دہانی سے مطمئن نہیں ہے۔
مظاہرین نے وزیراعظم عمران خان کے دھرنے میں آمد پر ہی دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک وزیراعظم عمران خان احتجاجی دھرنے میں نہیں آتے میتوں کی ہمراہ دھرنا جاری رہے گا۔
ہزارہ رہنما سید محمد رضا کا کہنا تھا کہ 22 سال سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں جینے کا حق ملنا چاہیے۔ صوبائی حکومت کل متاثرین کے پاس آتی تو شاید لوگوں کو اس صدمے میں اتنی زخمت نہ اٹھانا پڑتی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کابینہ فوری مستعفیٰ ہو۔ لاپتا افراد میں اگر کوئی مجرم ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے اور مچھ سانحے کی تحقیقات کیلیے جوڈیشل کمیشن کا اعلان کیا جائے۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کوئٹہ میں ہی موجود ہیں۔ کوئٹہ آمد پر میڈیا سے گفتگو میں شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اپنا طیارہ دے کر کوئٹہ بھیجا۔ واقعہ پر جوڈیشل کمیٹی کا اعلان کرتا ہوں ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہزارہ برادری کو مکمل سیکیورٹی دی جائے گی۔
واضح رہے کہ بلوچستان کی تحصیل مچھ کی کوئللہ فیلڈ میں 2 اور 3 جنوری کی رات دہشت گردوں نے گیشتری کے علاقے میں موجود ہزارہ برادری کے 10 کان کنوں کو آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پاؤں باندھ کر ذبح کردیا تھا۔ واقعہ کی اطلاع اتوار 3 جنوری کو موصول ہوئی، جس کے بعد ابتدا میں لاشوں کو مچھ ڈسٹرکٹ اسپتال اور بعد ازاں کوئٹہ منتقل کیا گیا۔
واقعہ کا مقدمہ 2 روز بعد درج کیا گیا۔ مقدمہ ایس ایچ او مچھ پیر بخش بگٹی کی مدعیت میں نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف درج کیا گیا۔ مقدمے میں قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔