مذہبی شدت پسندوں کے نام پر بلوچوں کو فوجی آپریشنوں میں نشانہ بنایا جائے گا – ماما قدیر

345

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے پریس کلب کے سامنے احتجاج جاری ہے۔ احتجاج کو مجموعی طور 4189 دن مکمل ہوگئے۔ سندھ یوتھ ایکشن کمیٹی کے چیئرپرسن تبسم ملاح، سینگار چانڈیو، اسد مغیری اور ان کے کابینہ کے علاوہ سندھ تحریک کے انور بردی نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ اور دس سال سے لاپتہ محمد فیصل آرائیں کے لواحقین نے کیمپ کا دورہ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس موقع پر کوئٹہ سے ایڈوکیٹ خالدہ بلوچ بھی کیمپ موجود تھی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق حمکران قیادت اس امر کی ایک بار پھر توثیق کررہی ہے کہ پاکستان میں آمریت و جمہوریت سمیت چاہے جیسی بھی حکومت ہو اس کا بلوچستان کی طرف رویہ نوآبادیاتی اور بلوچ قوم کے خواہشات کے منافی رہا ہے۔

انہوں کہا ماضی میں دعوے کرنے والے پارٹیوں نے اقتدار میں آنے کے بعد بلوچستان کے بارے میں وہی روش اختیار کی ہے جو ماضی سے حال تک اختیار کی جاتی رہی ہے۔ اس کا مظاہرہ جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی ماورائے عدالت اغواء اور لاپتہ کیئے گئے بلوچوں پر سفاکانہ تشدد اور شہادت کے بعد ویرانوں میں دفنانے اور پھینکنے جیسے کاروائیوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی مقتدرہ کو بدنامی کے علاوہ شدید عالمی دباو کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس لیے وہ بلوچستان میں مزاحمتی فضاء کے تشکیل کا ذمہ دار کسی اور کو ٹہرا رہے ہیں۔ اب مذہبی شدت پسندی کے نام پر بلوچوں کیخلاف آپریشن کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں نہتے ہزارہ کانکنوں کے قتل کی ایک وجہ بلوچستان میں وسیع پیمانے پر اعلانیہ فوجی آپریشن کیلئے رائے ہموار کرنا بھی تھا، بلوچستان بھر میں غیر اعلانیہ آپریشنوں کا تسلسل جاری رہا ہے لیکن اب اعلانیہ طور پر مذہبی شدت پسندی کے نام پر بلوچوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔