شیرزال کریمہ کو الوداعی سلام
تحریر: زبیر بولانی
دی بلوچستان پوسٹ
وہ انقلاب کی علامت تھی، وہ آجوئی کی پیغمبر تھی، وہ راستے کا چراغ تھی، وہ مزاحمت کا نشان تھی، وہ حق کی علمبردار تھی، وہ سر زمین کی بیٹی تھی، وہ گلزمیں کی وارث تھی، وہ اپنے وطن کی محبوب تھی، وہ ہر بلوچ کی دل کی دھڑکن تھی وہ بانک تھی، وہ گودی تھی، وہ کریمہ تھی،
آج بلوچستان کی سمندروں کی لہریں جھوم رہی ہوں گی آج سرزمیں کا زرہ زرہ اس کی آمد پر خوشی سے لبریز ہو گا آج تمپ کی زمین کا ہر ٹکڑا اس کی آمد پر لے لڑی و ھالو گنگنا رہا ہوگی۔
آج بلوچستان کا ہر زرہ اسے اپنی بانہوں میں لینے کیلئے بے چین ہوگا آج وطن کا ہر پیڑ و پودا اسے جھک کر سلامی دے رہا ہو گا۔ آج اس دھرتی کے سرمئی پہاڑ اسے دیکھ کر عش عش کرتی ہوں گی۔ آج بولان کا ہر پتھر اس کیلئے دعا کر رہا ہوگا ۔
آج کے اس پرفتن دور میں بھی وہ چٹان کی طرح کھڑی تھی، ظالم نے شاید سوچا کہ اسے شہید کر کے میں چین سے رہوں گا لیکن شاید وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ انقلابی کوئی شخص یا کوئی جسم نہیں کہ مار دیا تو ختم ہو جاتا ہے بلکہ انقلابی سوچ ہوتی ہے انقلابی نظریہ ہوتا ہے جسکی بنیاد پر ایک دو نہیں بلکہ پوری قوم چلتی ہے۔ کیا بابو نوروز کو اور اس کے ساتھیوں کو شہید کر کے ان کے نظریئے کو روک سکے؟ کیا شہید حمید کو پھانسی دے کر ان کی سوچ کو روک سکے؟ کیا نواب اکبر بگٹی کو شہید کر کے تم نظریئے کو مٹا سکے؟
ظلمت کے اس اندھیرے میں بھی وہ اپنی قوم کیلئے چراغ کی مانند روشنی تھی۔ اس نے اپنا آج آنے والی کل کیلیئے آنے والی نسل کیلئے قربان کر دیا۔ وہ صرف اب کریمہ نہیں رہیں وہ مزاحمت کی عظیم مثال بن چکی ہے۔ اب وہ صرف بانک ہی نہیں رہی بلکہ وہ آجوئی کی ایک علامت بن چکی ہے۔ اب وہ صرف ایک تاریخ کا ایک ورق نہیں رہی بلکہ تاریخ کا ایک باب بن چکی ہے۔ اب وہ صرف ایک عام انسان ہی نہیں رہی بلکہ وہ امر ہو گئی وہ عظیم سے عظیم تر ہوگئی ہے۔
اب بلوچ قوم سمجھ چکی ہے کہ اس کی گدان کو کون خاکستر کر رہا ہے کون ہماری سرزمین پر ہمیں ہی غلامی کی زنجیر پہنا رہا ہے کون ہمارے گدان میں آکر ہمیں ہی بے دخل کر رہا ہے بانک کی اس جدوجہد کو اس کے راستے کو اس کی مزاحمت کو اس کی رہنمائی کو بلوچ قوم تا قیامت یاد رکھے گی۔
بانک کریمہ کے قتل کے بعد صرف قافلہ نہیں بنا بلکہ اب وہ ایک کاراوان بن چکا ہے جسے نہ کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اسے ختم کر سکتا ہے۔
اے بانک کریمہ بلوچ قوم تیری اس جدوجہد کی مزاحمت کی خواری کی ہمیشہ تا قیامت قرضدار رہے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں