شہدائے 6جنوری قلات
حالیہ مزاحمت کے اولین شہداء
تحریر:عالیان یوسف
دی بلوچستان پوسٹ
یوں ہی نہیں کہا جاتا کہ بلوچ اپنی تاریخ خون سے لکھ رہے ہیں اور ان کی تاریخ ہمیشہ سے خون آلود رہی ہے بلکہ تاریخ سے یہ بات ثابت شدہ ہے. دفاع وطن کے لئے مزاحمت، آزادی کا حصول اور آزادی برقرار رکھنے کی تگ و دو صدیوں سے جاری ہے اس سفر میں بلا تفریق جنس و عمر اور طبقہ بلوچ اپنی گل زمین کی آزادی پر اپنی جانیں نچھاور کررہے ہیں. اور کریں گے یہی اُن کی ریت ہے یہی اُن کا رواج ہے اور یہی اُن کی تاریخ، ظلم و استبداد اور بدی کی جتنی قوتیں ہیں وہ مختلف ادوار میں شکل و رنگ اور زبان کے فرق کے ساتھ بلوچ قوم اور سرزمین پر جبر و تشدد اور قبضہ گیریت کو دوام دینے کی کوششیں کرتے رہے . ہزاروں میلوں دور سے آنے والے قابض قوتیں ہوں، بلوچ سرزمین سے متصل ہمسائے اقوام ہوں یا موجودہ قابضین، جنھوں نے اڑتالیس میں بلوچستان کی آزادی سلب کر لی جب جب بلوچ سرزمین پر یلغار کی گئی تب حملہ آوروں کو دفاع وطن کیلیے بلوچوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا مزاحمت کی شکلیں بدلتی رہیں ان کے رہنما بدلتے رہے لیکن بلوچ سرزمین پر قبضہ کرنے اور بلوچ نسل کُشی کی مزموم خواہش رکھنے والوں کے لئے یہ قوم تر نوالہ ثابت نہیں ہوا. بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا خواب پالنے والے اپنے مکروہ خوابوں کو لیکر خود دفن ہوگئے. بلوچ زندہ رہا بلوچ تہزیب زندہ رہی بلوچ تاریخ حیات و جاوداں رہا. اور جاوداں رہے گا اس لیے جاوداں رہے گا کہ بلوچوں کی شناخت تاریخ ثقافت زبان سرزمین کے آب و ہوا میں رچی بسی ہوہی ہے. اور جڑیں تاریخ کے زرخیز زمین میں بہت گہری خونی آب سے نشوونما پا کر گڑھی ہوئی ہیں.
تاریخ کے زرخیز زمین میں پیوست انھی جڑوں کی پیاس بجھانے، انھیں نشوونما دینے اور مزاحمت کی تاریخی تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے آج سے اٹھارہ سال پہلے 6جنوری 2002 میں بلوچوں کے پایہ تخت قلات میں تین بلوچ وطن پرستوں نے جام شہادت نوش کر کے پچھلے دو دہائیوں سے جاری حالیہ مزاحمت کے اولین شہدا کا تمغہ اپنے اپنے سینوں پہ سجا لیا. نئے سال کے ابتدائی ایام تھے قلات کی یخ بستہ رات تھی اور( میری) قلات کے زیرسایہ ایک گھر میں تین بلوچ مقیم تھے جن میں گلبہار پرکانی جو کہ عمر میں اندازاً پینتالیس سے پچاس سال تک کے ہونگے ، واحد مری ایک بیس سالہ نوخیز جوان اور صوبدار مری جنھوں نے زندگی کی صرف تئیس بہاریں دیکھی تھیں. رات گئے انھیں للکارا گیا اور ہاتھ اوپر اُٹھا کر باہر آنے کا کہا گیا. تینوں نے ہاتھ اوپر اُٹھا کر سرجھکا کر باہرآنے کی بجائے مزاحمت کر کے شہید ہونے کو ترجیح دی. قلات کے شہری جنھیں لاؤڈ اسپیکروں پر اعلان کر کے گھروں سے باہر نکلنے سے منع کیا گیا تھا اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ صبح تک جاری اس جنگ میں بلوچوں کی بندوقیں ترتیب سے دفاع کرتی رہیں ریاستی فورسز کو بھی نقصان اٹھانا پڑا. صبح کافی دیر تک بندوقوں کی یکطرفہ آوازیں تھیں. شہید جنت کی راہ چلے گئے تھے. گلبہار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہمیشہ اپنی داڑھی کو خضاب لگاتے. دوستوں کے چھیڑنے پر کہتے تم لوگوں کو نہیں پتہ بُلاوا اچانک آ جاتا ہے تیاری ہونی چاہئے. اُن کی تیاری مکمل تھی.
ریاستی بیانیہ میں کہا گیا کہ یہ دہشت گرد تھے ایک ہندو ملک کے ایجنٹ تھے . ان بلوچوں کی شہادت کے غالباً پندرہ بیس روز بعد قلات شہر ہی میں پمفلٹ تقسیم کیے گئے دیواروں پر چسپاں کر دیے گئے جس میں ان شہداء کو بلوچ وطن کے لئے جان قربان کرنے والے جانثار کہا گیا وطن پرست کہا گیا شہدائے تحریک آزادی کہا گیا.ریاستی بیانیہ ہمیشہ کی طرح دھول بن کر اُڑ گیا.
شہداء چھ جنوری قلات کی پہلی برسی پر بی ایس او کی زیرانتظام کوئٹہ میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں بزرگ رہنما نواب خیر بخش مری نے شرکت کی اور خطاب کیا. نواب مری کو سننے کے لئے لوگ اتنی تعداد میں آئے تھے کہ بیٹھنے کے لئے کرسیوں کی قلت پڑ گئی اور لوگوں نے کھڑے ہو کر ان کو سنا. ہال میں ایک کیلنڈر تقسیم ہوئی جس پر شہید گلبہار پرکانی شہید واحد مری اور شہید صوبدار مری کی تصاویر تھیں ایک کیلنڈر نواب مری کے سامنے رکھا گیا. جس پر اپنے خطاب کا وقت آنے تک نواب مری سرخ اور سبز رنگوں والے ایک دو رنگی پنسل سے نشان لگاتے رہے. اور اپنے تخیل میں ایک خاکہ بناتے رہے وطن پرست جہدکاروں کو بلوچ قوم نے قبول کر لیا انھیں اپنا لیا شہیدوں نے جو اعزاز پایا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا. شہید ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے اور کوہیں قلات کے تاریخی احساس تفاخر کو برقرار رکھا. کوہیں قلات کا سر کبھی بھی خم نہیں رہا.
ایک دور میں بھورے بالوں اور نیلی آنکھوں والے فرنگیوں کو بلوچ پایہ تخت کو فتح کرنے کی ہوس ہوئی. اُن کے پاس جدید ہتھیاروں کی وافر مقدار کے علاوہ دوسرے اقوام کی زمینوں کو قبضہ کرنیکا تجربہ بھی تھا اور بالاتر ہونے کازعم اور گھمنڈ بھی لیکن جہاں جہاں ان کا سامنا بہادروں سے ہوا وہ بلا تامل اس کا اعتراف بھی کرتے.
13 نومبر 1839 کی جنگ قلات جس میں خان بلوچ خان محراب خان کی شہادت ہوئی کے بارے میں خود انگریز کمانڈر ولشائر اعتراف کرتے ہیں “کہ بلوچ انتہائی بہادری سے لڑے اپنی زمین کی ایک ایک انچ کیلئے لڑے.” خان بلوچ اور ان کے ہمراہ آج بلوچوں کی تاریخ کا سنہرا باب بن گئے ہیں. بلوچوں کی تاریخی طور پر سند یافتہ خوداعتمادی ابھی بھی برقرار ہے کہ یہ ہماری سرزمین ہے ہمارا وطن ہے برائے فروخت نہیں ہے. کوڑیوں کے مول بکنے کے لئے نہیں ہے. قبضہ گیروں کے لیے تو بالکل تر نوالہ نہیں ان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا.
بلوچ اگرچہ اپنے بچوں کو بہ مشکل پالنے کی سکت رکھتے ہوں لیکن وطن کی حفاظت اور سرزمین پر مر مٹنے کی فکر کو عزیز رکھتے ہیں اولاد و مال سے زیادہ اس فکر کو مقدس جان کر اس کی پرورش کرتے ہیں اسے نسل در نسل منتقل کرنے کا موروثی فن بھی رکھتے ہیں. بلوچستان کے پہاڑوں کی طرح بلند و برز اور سینہ تان کر چلنے والے بلوچ اگر آپس میں الجھ جاتے ہیں تو یہ الجھن عارضی ہوتی ہے. الجھے ہوہے دھاگے کا سرا دوبارہ ہاتھ آہے گا. بیس سالہ مزاحمت کے خاکے میں سرخ رنگ شہیدوں نے اپنے لہو سے بھر دی ہے. سبز رنگ بھی ڈھل جاہے تو تصور میں بنایا گیا خاکہ تصویر کی صورت میں نظر آئے گا.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں