سائنسی طریقہ کار کا تنظیم پر اطلاق – نادر بلوچ

701

سائنسی طریقہ کار کا تنظیم پر اطلاق

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سائنس کے منظم ہونے سے جہاں انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں، وہیں پر وقت کے ساتھ مختلف رنگوں اور شکلوں کے ساتھ ایجادات نمودار ہوتی جارہی ہیں۔ سائنس ایک ترتیب ہے، ایک منظم فارمولہ ہے جس سے اشکال ترتیب پاتے ہیں۔ مالیکول سے لیکر زمین، چاند، ستارے سب ایک فارمولہ کے تحت تشکیل و ترتیب کا مرکب ہیں۔ انسان کے سوچ و فکر، جب سوال جنم دینے لگی تو غور و خوظ سے انسانی علم میں اضافہ ہونا شروع ہوا جسکی وجہ سے روز بروز سائنسی ایجادات کی بھر مار ہے، سائنس ہی کے بدولت انسان ہزاروں ٹن وزنی ساز و سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے قابل ہوا۔ سمندر میں ہزاروں ٹن لوہے سے بنے سمندری جہاز بنے، ہواوں میں سینکڑوں ٹن لوہے سے بنے ہوائی جہاز اڑنے لگے، ان ایجادات کے مرکب ارتباطی کو جانچیں تو مختلف اوزاروں میں ربط پیدا کرکے مشین بنائی گئی ہے۔ ان میں کسی ایک اوزار کی کمی کا مطلب یہ ہوگا کہ نظام سو فیصد کام کرنے سے قاصر ہے۔

علم سیاسیات و نفسیات، عمرانیات و دیگر سماجی علوم سائنس کی شاخیں ہیں۔ سائنس کو باریک بینی سے سمجھنا اور اسکے مختلف پہلوں سے آگاہی حاصل کرنے سے تنظیم کی کارکردگی کو بہتر کرنے میں آسانی پیدا ہوگی اور مقصد کا حصول آسان ہوگا۔ قومی تنظیم کی ذمہ داریوں کا محور وسیع ہونے کے سبب سائنسی طریقہ کار مکمل طور پر نافذ کرنا ناگزیر ہے۔ قیادت کو تنظیم کے ہر عمل کو سائنسی بنیاد پر پرکھنے کے ہنر میں مہارت ہو تو کسی بھی عمل کی جانچ سے کمیوں اور کوہتاہیوں پر قابو پائی جاسکتی ہے۔

تنظیمی عمل کے پر اثر ہونے کا دار و مدار باریک نقطوں کی پہچان اور سجمھنے سے ہوتی ہے۔ کوئی عمل چھوٹی یا بڑی نہیں بلکہ اس عمل کو جانچنا اور جاننا اہمیت کا حامل ہے۔ ایک سیاسی کارکن جس حد تک عمل کے مختلف پہلووں پر سوال اٹھائے گا ان سوالوں کے حل سے عمل کی اہمیت کو سائنسی انداز میں جانچنے کے طریقہ کار ڈھونڈے گا۔ تنظیم کیا ہے؟ تنظیم کا مقصد کیا ہے؟ تنظیم کا مرکزی ڈھانچہ کیسے ہونا چاہیے جو مقصد کو حاصل کرنے میں مددگار ہو؟ مقصد کو حاصل کرنے کیلیے کون کون سے وسائل درکار ہونگے؟ انسانی وسائل ( کارکن) کیسے حاصل کیے جاہیں؟ تنظیم کو مقصد حاصل کرنے کیلیے مزید کتنے متحرک ذیلی اداروں کی ضرورت ہوگی؟ ان ذیلی اداروں کو کارآمد بنانے کیلیے کونسے سائنسی طریقہ کار اپنائیں جائیں؟ ایسے بے شمار سوالات پیدا کرنے چاہیے تاکہ ایک مکمل ساہنسی نظام تشکیل دی جاسکے جو مقصد کے حصول کو آسان بنانے میں کردار ادا کرسکیں۔ وقت کی اہمیت و افادیت کا ادارک ہونا چاہیے کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے ایک مقررہ وقت کا تعین ضروری ہے۔ اس سے عمل کو صحیح سمت دینے اور مقررہ وقت پر انجام دینے میں مدد ملتی ہے۔ ادارے متحرک ہونگے تو تنظیم مضبوط ہوگی۔ تنظیم ہمیشہ اپنےکارکنوں کو مختلف انداز اپنا کر متحرک رکھتی ہے۔ ایک سیاسی تنظیم ، اندرونی اور بیرونی پالیسوں کو الگ الگ سمجھ کر پالیسی بناتی ہے۔ کارکنوں کو انکی صلاحیتوں کے مطابق کام دیکر تنظیمی کارکردگی کو بہتر کی جاسکتی ہے۔

تنظیم کا قیام قومی مقصد کیلئے ہو تو اس تنظیم اور اسکے لیڈرشپ سمیت سیاسی کارکنوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تنظیم کو فعال رکھنے کیلیے اپنی صلاحیتیں استعمال کریں۔ فرد سے لیکر اجتماعی کرداروں کو سائنسی انداز سے جانچیں۔ تنظیم کے کارکردگی کو سمجھنے کیلیے ضروری ہے کہ ہر عمل کا سائنسی مطالعہ ہو۔ مثلاً تنظیم کی موجودہ ممبر شپ کتنی ہے۔ تنظیم کاری کرنے کیلیے کونسے طریقہ کار کا استعمال ہورہا ہے۔ تنظیم کاری کے لیے کونسی ٹارگٹ رکھی گئی ہے۔ایک محدود وقت میں مزید کتنے یونٹس بنانے ہیں؟ یونٹ کی ممبرر کتنے ہیں؟ یونٹ میں ایکٹو ممبرز کی تعداد کتنی ہے؟ جو ساتھی ایکٹو نہیں ہیں اسکے کیا وجوہات ہیں؟ یونٹ میں زہن سازی کیلیے کونسا طریقہ کار ہے۔ علمی حوالہ سے کارکن کتنے لیس ہیں؟ ساتھی کارکنوں کی صلاحیتوں کو پرکھنے کیلیے کیا طریقہ کار استعمال ہورہا ہے۔ سرکلز تنظیمی کارکردگی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اگر انکا انعقاد سائنسی طریقہ کار پر ہو۔

سیاسی بیانیہ کو عام کرنے کیلیے تنظیم کاری، کردار سازی، ورک شاپس، سیمینار، ڈیجیٹل کانفرس، پمفلٹ، سرکل، میڈیا ، عوامی رابطہ ، احتجاج ، سوشل میڈیا یہ سب مل کر مقصد کی ترویج و تبلیغ کرتے ہیں۔ ان ذرایع کے استعمال کے مختلف پہلوں پر سیر حاصل بحث کی گنجائش ہے۔ ہر عمل کے بعد اسکے اثر انداز ہونے کا پیمانہ معلوم کر نے سے جدت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں جو تنظیم یا تحریک پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ تنظیم کے پالیسی ساز اداروں کی باگ ڈور ایسے کارکنوں کے ہاتھ میں دی جائے جو تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ ہر عمل کی اہمیت و انداز پر نقطہ نظر رکھتے ہوں۔ آج کی دنیاء میں مقابلہ بازی کا رجحان ہے تحریر و تقریر کے انداز و ذرایع استعمال کرکے تحریک کو قابل قبول بنایا جاسکتا ہے۔ کسی بھی سوچ و خیال کو سمجھنے کیلیے متواتر ڈسکشن کے رواج کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ سیاسی کارکنوں کی قیمتی وقت اور صلاحیتوں کو صحیح رخ دیکر قومی تحریک کو عروج کی جانب لے جانے میں آسانی پیدا کی جاسکے۔

سیاسی یا سماجی کوئی بھی تنظیم ہو اسکی کارکردگی فرد سے شروع ہوکر اجتماعیت کی شکل اختیار کرتی ہے اس لیے تنظیمی مقاصد کے حصول کیلیے فرد یا سیاسی کارکن کی ذمہ داری اور کردار کو سمجھنا اور کردار کو برورئے کار لانا ناگزیر ہے۔ انفرادی کارکردگی کو اجاگر کرنے کیلیے ہر سیاسی کارکن کو اپنی خداداد صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہیرا ایک پتھر ہی تو ہے لیکن وہ انمول تب ہی بنتی ہے جب تراش خراش کے مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ بلکل اسی طرز پر انفرادی کردار کو تراشنے اور اہلیت کو نکھارنے والے سیاسی کارکن کو ممتاز حیثیت حاصل ہوتی ہے اور ایسے نوجوان ہی مستقبل میں رہنمائی کا کردار ادا کر پاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ایک سیاسی کارکن فرد کی حیثیت سے اپنے کردار کو سنوارنے کیلیے کوشاں رہے تاکہ سائنسی اصولوں کو استعمال میں لاتے ہوئے مجموعی کرداروں کی تشکیل سے اجتماعی تبدیلی کی شکل اختیار کرنے میں کامیاب ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں