دل جي ڪيٽي بندر تي – محمد خان داؤد

200

دل جي ڪيٽي بندر تي

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

الیگزینڈر سولنسٹین کا”کینسر وارڈ“ میں پوچھا گیا یہ سوال اب بھی جواب کے تلاش میں دربدر ہے کہ
”لوگ کس چیز کے سہا رے جیتے ہیں؟“
کینسر وارڈ میں الیگزینڈر سولنسٹین نے پندرہ سو صفحات لکھے، ہزاروں جملے اور الفاظ لکھے، پھر بھی وہ سوال لبِ تشنہ ہی رہا کہ
”لوگ کس چیز کے سہا رے جیتے ہیں؟“
یہ سوال اب لکھے ناول کینسر وارڈ سے نکل کر دور دور تک پہنچ چکا ہے،ان ماؤں کے پاس بھی جن کے بیٹے ریاست کھا گئی اور ان بہنوں کے پاس بھی جو اس سخت موسم میں مسافر بنی ہوئی ہیں۔
انسان بھی کیسا عجیب ہے جب اپنوں کا ساتھ ہوتا ہے تو وہ پھر بھی جیتا رہتا ہے، جب اپنوں کا ساتھ نہیں رہتا وہ پھر بھی جینے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔

سندھ اور بلوچستان میں کئی مائیں اپنوں کے ساتھ کے سوا جی رہی ہیں
پر جی رہی ہیں
سندھ اور بلوچستان میں کئی سکھیاں،بیٹیاں،اپنوں کے ساتھ کے سوا جی رہی ہیں
پر جی رہی ہیں
بلوچستان کی فرزانہ مجید اور اس کی ماں ذاکر کے ساتھ کے سوا جی رہی ہیں
پر جی رہی ہیں
بلوچستان کی سمی اور مہلب ڈاکٹر دین محمد کے ساتھ کے سوا جی رہی ہیں
پر جی رہی ہیں

ایسے جینے والوں کے لیے لطیف نے کہا تھا کہ
”جئن کان جیڈیون مون وڈا وس کیا“
غم زدہ انسانوں کے پاس تو اس سوال کا جواب نہیں کہ
”لوگ کس چیز کے سہا رے جیتے ہیں؟“
پر خوش پاش لوگوں کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں کہ
”لوگ کس چیز کے سہا رے جیتے ہیں؟“

ٹھیک ہے خوش لوگ،اپنی خوشیوں کے سہارے جی جاتے ہیں
پر غمزدہ لوگوں کے پاس جینے کو کیا ہوتا ہے کہ وہ پھر بھی جیے جا رہے ہیں؟
جون ایلیا نے بالکل درست لکھا تھا کہ
”شہر کے خوش باش لوگ سرِ شام چلے آتے ہیں
یہ دیکھنے کہ میں کیسے بُجھ رہا ہوں“
کیا غم زدہ لوگ اس سہا رے پر جی جا تے ہیں کہ وہ تھوڑا تھوڑا ہوکر آخر بُجھ ہی جائیں
اور خوش لوگ اس سہا رے پر جی جا تے ہیں کہ وہ سرِ شام جا کر یہ دیکھیں کہ غم زدہ لوگ کیسے بُجھ جا تے ہیں؟
شاید ہم میں سے کسی کو بھی اس سوال کا جواب نہ ملے کہ
”لوگ کس چیز کے سہا رے جیتے ہیں؟“

ہم کیا پر اس سوال کا جواب تو ”کینسر وارڈ“ کے خالق الیگزینڈر سولنسٹین کو بھی نہ مل پایا وہ اپنے زور ِ قلم سے ہزاروں جملے،ہزاروں الفاظ،سیکڑوں صفحے تو لکھ گیا پر سوال کا جواب نہ مل پایا کہ
”لوگ کس چیز کے سہا رے جیتے ہیں؟“
روس کی میٹیالی سفید اور سرد سڑکوں سے ہوتا ہوا یہ سوال جب سندھ اور بلوچستان پہنچا تو اس سوال کو وہ جواب مل گیا جس کی بنیاد پر ”کینسر وارڈ“ کی تخلیق ہوئی
سندھ میں سا کا جواب لطیف صدیوں پہلے دے چکا تھا کہ
”جئڻ ڪاڻ جيڏيون مون وڏا وس ڪيا!“
اور اب اس سوال کا جواب سندھ سبھا کا سروان انعام سندھی دے رہا ہے
لطیف کا جواب الفاظو میں ہے اور انعام کا جواب عملی جدو جہد میں
بلوچستان میں اس کا جواب فرزانہ مجید کے وہ پیر دے چکے ہیں جو پیر اتنے گھائل ہیں جن کے دردوں کو شمار نہیں کیا جا سکتا،جن کے دردوں کو کہیں الفاظوں میں لکھا نہیں جا سکتا،جن کے زخموں کو گنا نہیں جا سکتا اگر کوئی فرزانہ کے زخمی پیروں کے درد اور زخم گنے بھی تو اس کا جواب اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے جس کے لیے مشال کی ماں نے ایک صحافی کو رو تے ہو ئے بتایا تھا کہ
“جب میں نے مشال کا ہاتھ چومہ
تو اس کے ہاتھ کی سب انگلیاں ٹوٹی ہو ئی تھیں!“
اس لیے اگر کوئی فرزانہ کے دردیلے زخمی پیر چومیں تو وہ دیکھ سکتا ہے کہ اس کے پیروں کی سب انگلیاں اور تلوے زخمی ہیں!
اب بلوچستان میں وہ فرزانہ نہیں،جو اپنے تلے اپنی رنگت جیسا سفید کوٹ پہنے M,SC کی کلاسیں لینے جا رہی ہو تی تھی،اب تو سب رنگوں میں اداسی کی رنگت چھا گئی ہے چاہیے وہ فرزانہ کے چہرے کی رنگت ہو چاہیے سفید لیب کوٹ چاہیے بلوچستان کے پہاڑوں میں ڈوبتا،طلوع ہوتا سورج،چاہیے چمکتے،روتے تا رے،چاہیے آنکھ مچولی کرتا چاند،چاہیے اپنی ہی باتوں میں خفا بادل چاہیے بلوچستان کی دھرتی،چاہیے بلوچستان کے پہاڑ،چاہیے بلوچستان دھرتی پر برستی بارش!
اب ان میں کیا ہے؟
سوائے غمزدگی،سوائے اداسی!
اور یہاں سندھ میں جب سے انعام سندھی کے کانوں میں لطیف کی یہ صدا پڑی ہے کہ
”جئڻ ڪاڻ جيڏيون مون وڏا وس ڪيا!“
تو انعام سے وہ کتابیں ایسے چھوٹ گئی ہیں جیسے مولانا رومی سے شمس تبریز کے ساتھ کے بعد علم،علمی باتیں،علمی واعظ،علمی تقریریں،اور کتابیں چھوٹ گئیں تھیں
لطیف نیا شمس بن کر انعام کی زندگی میں آیا ہے
اور انعام نیا شمس تبریز بن کر لطیف کی زندگی میں آیا ہے!
بلوچستان میں فرزانہ کو اس سوال کا جواب پریشان کیا کرتا تھا کہ
”لوگ کس چیز کے سہا رے جیتے ہیں؟!“
اور یہاں اب کئی سالوں بعد انعام پریشان ہو رہا ہے کہ
”لوگ کس چیز کے سہا رے جیتے ہیں؟!“
فرزانہ بھی اپنوں کی تلاش میں مسافر بنی تھی اور کئی کلومیٹر زمیں اپنے پیروں تلے روند کر وہاں پہنچی تھی جہاں پیا ملن ک آس تھی
اور آج انعام بھی اپنے پیروں تلے کئی کلو مٹر دھرتی کو پیچھے چھوڑ کر وہاں جا رہا تھا جہاں اس کو کسی میگزین کے اشتہار کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی،پر انعام آپ اشتہار بن کر اس دھرتی پر لہرا نے جا رہا تھا
جہاں پیا ملن کی آس تھی!
جہاں بند دروازوں کے پیچھے اپنوں کی آوازیں تھیں
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انعام کے دل پر کوئی کشتی لنگر انداز ہوئی ہے
اور وہ کسی کشتی ہے؟
اس کشتی کے مسافر کون ہیں؟
اور وہ دل کیسا ہے؟
شاید ایسا کہ
”دل جي ڪيٽي بندر تي!“
نا تمام…………….


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں