حقیقی اور مصنوعی لیڈر کے فوائد اور نقصانات – ڈاکٹر شکیل بلوچ

1116

حقیقی اور مصنوعی لیڈر کے فوائد اور نقصانات

تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لیڈر کا مطلب لِیڈ کرنے والا یعنی رہنمائی کرنا والا ہوتا ہے۔ وقت اور حالات کے مطابق اصولی بنیاد پر قائد رہنمائی کرتا ہے۔ ایک ادارے یا تنظیم کو لیڈ کرنے کیلئے لیڈر میں بہت ساری خصوصیات ہونی چاہیئں تب جاکر وہ اپنے لوگوں کی صحیح معنوں میں قیادت کر سکتا ہے۔ اللّہ تعالیٰ نے کائنات کو چلانے کیلئے ہر شے کو منظم انداز میں ترتیب دی ہے۔ بغیر قائد کے ادارے یا تنظیم اپنے منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اسکی مثال ہم ایک مسافر بردار بس سے لے سکتے ہیں جسطرح مسافر بس ایک نا تجربہ کار ڈرائیور کو دیا جائے تو وہ کسی نہ کسی جگہ پر گاڑی کو کڈھے میں گرا کر تمام مسافروں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

عین اسی طرح ایک ادارے کو منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے ایک تجربہ کار لیڈر کی ضرورت ناگزیر ہے۔ جسمیں لیڈر شپ کی تمام خصوصیات پائی جائیں۔ ایک باکردار لیڈر خوش اطوار، خوش خصال، بردبار، اچھے رویے کا حامل علم و شعور سے آراستہ اور مستقل مزاج شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ جس نے اپنی سیاسی زندگی میں کئی نشیب وفراز سے گزر کر لیڈر شپ کا مقام حاصل کر لیا ہے۔ تب جاکر وہ وہ اپنے ادارے کی اصولی بنیادوں پر رہنمائی کرسکتا ہے۔

ایک سیاسی لیڈر اپنے پارٹی یا تنظیم کے قوائد وضوابط اور آئین کی پاسداری کو اپنا اولّین زمہ داری سمجھتا ہے۔ اور وہ اپنے رویے اور اخلاق سے پارٹی یا تنظیمی اراکین اور عوام کے اندر مقبولیت حاصل کرتا ہے۔ ایک باوقار لیڈر اپنے اخلاق اور رویوں سے اپنے ادارے یا پارٹی کو منظم اور مستحکم کرکے روشن منزل کی جانب کر سکتا ہے۔ البتہ غیر سیاسی رویے پر حامل نا آزمودہ کار قائد اپنے ادارے یا پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان دیتا ہے جسطرح لکڑی کو دیمک۔

ایک لیڈر کی قیادت کے دوران تنظیم یا پارٹی کے اراکین کے درمیان زہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور پارٹی کے اندر مسائل کم اور تعمیری عمل زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ایک حقیقی لیڈر اپنے پارٹی اراکین کو اپنے سیاسی رویوں، اخلاق اور اطوار سے متاثر کرتا ہے۔ جسکے احکام پر اراکین اپنی زمہ داریوں کو اچھے طریقے سے نبھاتے ہیں اور پارٹی روز بروز منظم ہو کر اپنے مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

ایک باکردار لیڈر کی قیادت پر منسلک پارٹی کی اپوزیشن سیاست کے میدان میں انکے مقابلے میں اپنے آپکو منوانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ پارٹی کا رول ماڈل انکا لیڈر ہے اور عوام زیادہ تر لیڈر کی کارکردگی اور رویوں پر نظر رکھتا ہے۔ ماضی میں تنظیم یا پارٹی کتنی مضبوط و مستحکم اور عوام میں کتنی مقبولیت حاصل کیوں نہ کی ہو مگر پارٹی کی موجودہ لیڈر انکو صحیح اور غلط سمت میں جانے کا زمہ دار ہے۔ یہ لیڈر پر منحصر ہے کہ وہ اپنے سیاسی رویوں اور اصولوں کی بنیاد پر حکمت عملی تشکیل دے کر کس طرح پارٹی کو بحران سے نکالتی ہے۔ سیاست سے بلد اور آزمودہ کار لیڈر کبھی دوسرے پارٹی کی کاموں میں ٹانگ اڑا کر دخل اندازی کرنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ انکے کردار اور رویوں سے دوسرے پارٹی کے اراکین خودبخود متاثر ہوکر انکی پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔

پارٹی یا تنظیم کے زوال اور ناکامی کا آغاز اس دن شروع ہوتا ہے جس دن وہ ایک باکردار اور تجربہ کار لیڈر سے محروم ہو۔ چنانچہ پارٹی کے اندر مخلص اور نظریاتی کارکن ہمیشہ اچھے لیڈر کا چناؤ کرتے ہیں چاہے وہ کس علاقے اور کس کلاس اور طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔

مصنوعی لیڈر کی قیادت میں پارٹی یا تنظیم کی تنزلی کے دن شروع ہوتے ہیں۔ اور دشمن سے زیادہ پارٹی کو نقصان سے دوچار کرتا ہے۔

اگر کسی پارٹی یا تنظیم کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے تو ان کے اراکین کو ورغلانے یا نقصان دینے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کو نیست و نابود کرنے کیلئے ایک نابلد اور ناآزمودہ کار شخص کو مصنوعی طور پر ایک لیڈر کا لبادہ اوڑھ کر عوام کے اندر مشہور کرکے انکو مجبوراََ ایک لیڈر تسلیم کرانی ہے۔ تب جاکر وہ پارٹی اپنے اصل مقصد اور اصولوں سے ہٹ کر تنزلی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔

یہاں یہ سوال زہن میں ابھرتا ہے کہ مصنوعی لیڈر پیدا کیسے ہوتے ہیں ؟ مصنوعی لیڈر اکثر پارٹی کے سابقہ قائدین سے قربت رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایک سوچے سمجھے پالیسی کے تحت چالاکی اور ہوشیار باشی سے قائدین سے قربت حاصل کرنے کیلئے انکا جی حضوری کرکے انکے دل میں ایک مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اسطرح قائدین سے قربت کی وجہ سے وہ عوام کے سامنے اپنے شیخی جتانا شروع کرتے ہیں اور عوام اور دیگر اراکین کو یہ باور کرانے کی کوششیں کرتے ہیں کہ وہ اپنی قابلیت اور مخلصی کی وجہ سے مرکزی قائدین کے ساتھ قریب تر رہا ہے اور انکے بعد لیڈر شپ کا کردار نبھانا انہی کا حق ہے۔ اور بالآخر وہ اپنے عزائم کو تکیملی مرحلے میں پہنچاتے ہیں۔

بعض مصنوعی لیڈر سیاست کو بطور وراثت سمجھ کر اہم منصب کی زمہ داریوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور وہ دوسرے اراکین سے ہمیشہ اپنے آپ کو برتر اور شعور یافتہ سمجھ کر عوام پر احسان جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پارٹی کی قیادت کا حق صرف ہمیں حاصل ہے کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد نے قیادت کی ہے۔ اسطرح کے مصنوعی لیڈر پارٹی اور قوم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کیونکہ لیڈرشپ میں ایک سیاسی عمل اور تجربے سے گزرنا ایک لازمی امر ہے۔ نرم مزاج، بردبار، سیاسی پیچیدگیوں سے واقف، خوش خصال اور خوش اسلوب جیسے خصوصیات سے لبریز ایک سیاستدان پارٹی کے اراکین کی نفسیات کو اچھے طریقے سے سمجھ سکتا ہے اور اسی حساب سے انکو زمہ داری سونپتا ہے۔

تحفے میں حاصل ہونے والی لیڈرشپ عارضی طور پر تو ہیرو بن سکتا ہے مگر مستقبل میں پارٹی کو ایک تاریک سمت کی جانب گامزن کرتا ہے۔ پھر پارٹی کو منظم اور مستحکم کرنے میں عرصے درکار ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ نہیں کہ عارضی طور پر انکے اراکین پارٹی سے کنارہ کش ہوتے ہیں بلکہ پارٹی پر عوام کے بھروسے ٹوٹتے ہیں نتیجتاََ پارٹی ایک لازوال نقصان سے دوچار ہو کر پھر ادارے کی سابقہ ہئیت کو بحال کرنے میں عرصے درکار ہوتے ہیں۔

مصنوعی لیڈرشپ اکثر غیر شعور یافتہ عوام اور سیاست سے بیگانہ اراکین کی وجہ سے جنم لیتے ہیں کیونکہ وہ سیاست اور سیاسی زمہ داری پر بخوبی علم وشعور نہیں رکھتے ہیں بس وہ یقین کر بیٹھتے ہیں کہ لیڈرشپ یا پارٹی قیادت اس شخص کا حق ہے جو وراثتاََ سیاسی پارٹیوں کا حصہ رہا ہے۔ وہ انکے سیاسی رویوں اور سیاسی شعور پر توجہ نہیں دیتا کہ وہ کتنی اہلیت کا حامل ہے جسکو پارٹی یا تنظیم کی قیادت کرنے کی زمہ داری سونپی جائے۔

مصنوعی لیڈر شپ کو عوام اور اراکین کے درمیان پزیرائی حاصل کرنے کیلئے انکی تشہیر غیرمعولی امر ہے۔ تاکہ کم وقت میں پوری قوم کے اندر مصنوعی لیڈر شپ کی تشہیر ہوسکے۔

مصنوعی لیڈر شپ کی تشہیر کے اپنے طور و طریقے ہوتے ہیں۔ جسطرح انکے معمولی باتوں کو ایک مشہور کہاوت کی شکل میں تبدیل کرکے لوگوں تک پہنچانا ہے تاکہ عوام یہ بات اچھی طرح سمجھ سکے کہ یہ قوم کے قائد سیاسی علم وشعور سے لبریز ہے جسکی زبان سے نکلے گئے ہر لفظ کا پس منظر ایک کہانی چھپا ہوا ہے۔ تاکہ عوام دل وجان سے انکو اپنا لیڈر تصور کرے۔

مصنوعی لیڈر کی سب سے بڑی دلچسپی انکے منصب اور عہدے کی تشہیر ہے بس وہ اپنے نام کے ساتھ عہدے کو ظاہر کرنا پسند کرتا ہے۔ اور اسکے زہن میں بس یہ بات بستا ہے کہ تاریخ کے اوراق میں انکے نام کے ساتھ انکا عہدہ بھی لکھا جاتا ہے۔ اور وہ اس بات پر فخر کرکے دل کو تسلی دیتا ہے کہ حال ہی میں جو بھی ہو لیکن میں اپنا دورانیہ کسی نہ کسی طریقے سے پورا کرکے تنظیم سے فارغ ہوتا ہوں اور بعد میں کوئی آکر ادارے کو مزید فعال بناتا ہے تو ٹھیک اگر تنظیم مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے تو پھر وہ اس بات کو اپنے لئے فخریہ لمحہ سمجھتا ہے کہ انکی فراغت کے بعد تنظیم ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہا ہے۔ انکے دورانیے میں تنظیم بہتر اور مستحکم تھا۔

مصنوعی لیڈر اکثر اپنی کمزوری اور کوتائیوں کو چھپانے کیلئے حالات اور واقعات جیسے موضوعات کا سہارا لیتا ہے اور اکثر کہتا ہے کہ اتنے بڑے پر کٹھن حالات میں اس نے تنظیم کی قیادت کی ہے۔ مگر وہ اس بات کو نہیں سوچتا کہ انکی قیادت کے دوران تنظیم یا ادارے کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان پہنچا ہے۔ اگر وہ ان دونوں نقص یا نفع کو ترازو پر رکھ کر پرکھ لے کہ آیا نقص کا پلڑا بھاری ہے یا نفع کا۔ اگر نقص زیادہ اور نفع کم تو وہ اس بات کو سمجھ لے کہ تاریخ بھی اتنا اناڑی اور اندھا نہیں کہ وہ ایک نابلدکار اور مصنوعی لیڈر کو ایک لیڈر ثابت کرے۔ ہاں البتہ انسان اپنے ذہن کی تسکین کیلئے من گھڑت موضوعات کا سہارہ ضرور لیتا ہے۔

یہاں پھر ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ سابقہ قائدین مصنوعی لیڈر کی سیاست میں عبور اور قابلیت کو جانتے ہوئے بھی مصنوعی لیڈر کو زمہ داری کیوں سونپتے ہیں؟

اس سوال کا اگر آسان لفظوں میں جواب دیا جائے تو وہ ہے تنظیم یا پارٹی سے فراغت کے بعد بھی اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے۔ تاکہ سابقہ قائدین پارٹی سے فارغ ہوکر بھی تنظیم کاموں اور فیصلوں میں دخل انداز ہوسکیں۔ اور انکی ملکیت کا اختتام نہ ہو۔

کیونکہ مصنوعی لیڈر اپنے سابقہ قائدین کا یس مین / جی حضور ہوتا ہے۔ اور وہ خود موجودہ حالات اور تنظیمی کاموں سے ناواقف اور نابلد ہوتا ہے اور ہر کام کرنے سے پہلے سابقہ قائدین کے احکامات کا انتظار کرتا ہے کہ اوپر سے کوئی حکم آئے تو بعد میں تنظیمی کام کو سر انجام دیا جائیگا۔

مصنوعی لیڈر کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ وہ خود ادارے کی رہنمائی نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ اپنے اراکین کی نفسیات کا ادراک کرسکتا ہے۔ اس وجہ سے اراکین کے درمیان مایوسی پھیلتا ہے اور رفتہ رفتہ مسائل ابھرتے رہتے ہیں۔ بہت سے اراکین مایوس ہوکر تنظیم سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔ بالآخر تنظیم کی ساخت کو نقصانات درپیش ہونا شروع ہوتا ہے۔ اور وہ ایک تنظیم اور ادارے کی حیثیت کھو دیتا ہے۔ اور اگر تنظیم کے اندر اراکین کو انکی سیاسی قابلیت اور تجربے کے تحت سیاست کا موقع نہیں دیا گیا اور مصنوعی لیڈر پیدا کرنے کا تسلسل برقرار رہا تو بالآخر تنظیم اجتماعیت سے نکل کر انفرادیت تک محدود ہوتا ہے۔ اور مجموعی اور اجتماعی سوچ ختم ہوکر چند خاندان کے گرد گھومتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں