بلوچ رہنماء اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف جرمنی کے شہر گوٹگن میں ریلی اور مظاہرہ ۔
ٹی بی پی نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق جرمن صوبہ ندر سگسن کے شہر گوٹگن کے مصروف ترین علاقے میں خواتین و بچوں سمیت بلوچ سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا کر کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے شہر کے سڑکوں پر مارچ کیا، بلوچ سیاسی کارکنان سے اظہار یکجہتی کے طور پر جرمن لیفٹ کے سیاسی کارکنوں سمیت سندھی سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔
ریلی اور مظاہرے میں شریک بلوچ سیاسی کارکنوں سمیت خواتین اور دیگر نے کریمہ بلوچ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شمع روشن کیے اور اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ بلوچ بلوچستان کی بیٹی اور قومی جدوجہد کی عظیم ساتھی تھی جنہیں قتل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان سمیت دنیا بھر میں مقیم بلوچ اور ان کے ہمدرد کینیڈا پولیس کی ابتدائی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے صاف شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا یہ حادثہ نہیں بلکہ ریاستی قتل ہے، ساجد حسین کے بعد کریمہ کی موت اور کینیڈا حکومت کی غیر ذمہ داری ایک اور سانحہ کو جنم دے سکتی ہے، لہٰذا پولیس اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے قاتلوں کو بے نقاب کرے۔
مظاہرین نے یورپ سمیت کینیڈا میں بلوچ سیاسی کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا ہے سیاسی کارکنوں کو جبری گمشدگی کا شکار بننے کے بعد اجتماعی قبروں میں زندہ درگور کیا جاتا ہے، اب یورپ اور کینیڈا جیسے محفوظ ممالک میں پاکستان اپنے شیطانی عمل کو وسعت دے رہا ہے۔
مظاہرین نے کینیڈا حکومت سے مطالبہ کیا کہ کریمہ بلوچ قتل کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے، انہیں دھمکی دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان سمیت دنیا کے بلوچ مسلسل سراپا احتجاج ہیں اور ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ بلوچستان کو انصاف فراہم کیا جائے۔
خیال رہے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ گذشتہ سال 20 دسمبر کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے لاپتہ ہوئے اور اگلے دن ان کی لاش ایک جھیل سے ملی تھی، بلوچستان سمیت کئی ممالک میں گذشتہ دو ہفتوں سے زائد مسلسل احتجاج جاری ہے۔