بلوچستان کا شیر، شیر محمد مری
تحریر: جی آر مری
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ ہمیشہ اسی کا لکھا جاتا ہے جو تاریخ کا حصہ رہا ہے یا جس نے تاریخ رقم کی ہے شیر محمد مری نے ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے کہ جن کے بارے میں لکھنے سے دل میں ایک خوشی اور جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
شیر محمد مری بلوچستان کا شیر ہے اور شیر محمد مری جیسے شیر بہت کم پیدا ہوتے ہیں شیر محمد مری پورے بلوچ قوم کے دل میں ہمیشہ زندہ رہیگا بلوچستان کے لیے آپ ایک روشن چراغ کی مانند ہیں۔
میر شیر محمد مری، مری قبیلے کی شاخ ” بجارانی” کے گھرانے ” نہالان زئی” سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد محترم میر سیدان خان قبائلی تنازعے میں بے وطن ہوکر قندھار( افغانستان) میں جا بسے، وہیں فوت ہوئے اور دفن بھی وہیں ہوئے۔
میر شیر محمد مری بلوچستان کے بہت پرانے سیاسی راہنما ہیں۔ اُنہوں نے بابائے قوم نواب خیر بخش مری کی رفاقت سے پہلے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست کا آغاز کیا تھا مگر اس وقت کے مسلم لیگ اجارہ داروں نے میر غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، میر عبدالعزیز کرد اور سلطان ابراہیم خان کی طرح ان کو بھی منہ نہ لگایا اور عملاً پیچھے دھکیل دیا تو یہ لوگ دوسری طرف چلے گئے اور اپوزیشن کی سیاست ان کا مقدر بن گئی۔
وہ ایک مفکر، شاعر و ادیب اور صاحب تصنیف دانشور تھے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس وقت کے جتنے بھی بقید حیات سردار و معتبر سیاسی لیڈر ہیں، آپ ان سب سے سینیئر اور بہت سوں کے معلم و اتالیق بھی رہے ہیں۔ میر شیر محمد مری نے اپنی بعض بشری کمزوریوں کے باوصف اس وقت زندگی کی کٹھنائیوں کو گلے لگایا جب جوانی کی رعنائیاں انہیں عیش و مستی کی جانب کھینچ رہے تھے۔
اور سیاسی دنیا میں ان کی قیمت اور وزن کا تعین کیا جارہا تھا۔ سیاسی عہدوں اور متقدر کرسیوں کی ایک قطار بھی آپ کی منتظر تھی مگر آپ عمر بھر لڑتے رہے ۔ عمر بھر قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے اور زندگی کے راحت آفرین لمحات آپ کا تعاقب کرتے رہے۔
میر شیر محمد مری نے تمام شعوری زندگی لیفٹ کی سیاست کی۔ آپ نے اپنے ترقی پسند نظریات سے نہ صرف اپنے سردار قبیلہ کو بلکہ نصف درجن سربراہ آوردہ، قبائلی چیفس کو بھی متاثر کیا اور ایک عہد کے تمام تعلیم یافتہ نوجوانوں کوبھی ترقی پسند انقلاب کا پرجوش نعرہ دیا۔ قوم پرستی کا رحجان ابھرا۔
میر شیر محمد خان مری منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ آپ میں ایک مقناطیسی کشش تھی جو اپنی طرف کھنچتی تھی۔ جو ایک آپ کے دائرہ اثر میں آگیا، وہ ہمیشہ کے لئے ان کا حلقہ بگوش ہوگیا۔ آپ ڈھکے چھپے الفاظ میں کچھ کہنے کے عادی نہیں تھے۔ بلکہ بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ آپ کافی عرصہ وطن سے باہر رہے۔ لیکن اپنی ثقافت کو بھولے نہیں تھے۔ مری بجارانی پگڑی شیر جیسی مونچھیں، داڑھی کرتہ مری کٹ( چلہ ریش) چپلی(چوٹ) اور بلوچی واسکٹ( سدری) آپ کی شخصیت کی پہچان تھے۔ جیل کی طویل زندگی میں معروف صحافی محمد صلاح الدّین اور سیاست دانوں میں سید قصور گردیزی، عبدالباقی بلوچ اور حیدرآباد سازش کیس کے تمام لیڈر شامل تھے۔
ملتان کے سید قصور گردیزی، مرحوم میر غوث بخش بزنجو کے گہرے دوست اور ان کے سیاسی ہم سفر تھے۔ مری شیر محمد مری کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ شخص بلوچستان کا فیڈرل کاسترو ہے۔ اگر قبائلی سردار یا نواب دل سے اس کے ساتھ ہوں تو یہ واقعی بلوچستان کو کیوبا بنادے مگر یہ دیوانہ اکیلا تھا اور اکیلا ہی رہ گیا۔ مرحوم میر غوث بخش بزنجو سے ایک تقریب میں جب شیر محمد مری کی کوئی بات کی گئی تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ شیرو، ” ہمارا شیر ” ہے۔
آپ کہتے تھے کہ مری علاقہ میں تیل و گیس نکالنے کے سلسلے میں پورے مری قبیلے کو اعتماد میں لیا جائے اور 1984ء میں صدر جنرل محمد ضیا الحق کے ساتھ کیے جانے ہمارے بعض لیڈروں کے سمجھوتے کو شائع کیا جائے۔ حکومت ہمارے ساتھ آنے والے مریوں کو بھیک نہیں، ان کا حق دے۔
میر شیر محمد مری کہتے تھے کہ انگریزوں کے دور سے مجھے غدار کہا گیا لیکن مجھے فخر ہے کہ میرے ٹائٹل میں فرق نہیں آیا حالانکہ میں عمر بھر نفرت کی دیواروں سے سے ٹکراتا رہا ہوں اور بلوچ قوم کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتا رہا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچ قوم کو تمام بلوچ سرداروں کا احتساب کرنا چاہیے اور سب سے پہلے مجھ سے حساب لیا جائے، پھر دوسروں سے بھی حساب لیا جائے۔
آپ نے کہا کہ ملک میں نفرتوں کی دیواریں اس قدر اونچی ہوگئی ہیں کہ ایک صوبے کی آواز دوسرے صوبے میں سنائی نہیں دیتی۔ آپ نے کہا کہ حقوق کے حصول میں کوئی سودے بازی نہیں ہوگی۔ سب کو برابر حقوق ملنے چاہئیں۔ قوم کو مجھ سمیت تمام لیڈروں کا احتساب کرنا چاہیے۔ بلوچ کسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کو اپنے معاملات میں مداخلت کرنے دیں گے۔ بلوچستان آکر احساس ہوا کہ جیسے یتیم بچہ ماں کی گود میں آگیا ہو۔ آپ نے کہا کہ موجودہ دور میں قبائلی نظام ٹوٹ رہا ہے مگر قبائلی سوچ موجود ہے اور قبائلی نظام جس قدر جلدی ختم ہوگا ، اتنا ہی بلوچوں کے لیے بہتر ہے۔
مرحوم صدر جنرل محمد ایوب خان اور صدر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں مری علاقے میں تحریک مزاحمت نے ایک مری معتبر زادے میر شیر محمد مری عرف ” جنرل شیرو” کو جنم دیا اور وہ ” گوریلا لیڈر” کی حیثیت سے کوہساروں کی دنیا کے افق سے نمودار ہوا۔ پھر بغاوت کے مقدموں نے انہیں عدالتوں کے کٹہروں میں دیکھا اور پاکستان کی جیلیں برسوں ان کو عذاب و عتاب سے دوچار کرتی رہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لاکھوں بلوچوں کے دلوں میں جاگزیں ہوا۔ آپ پر شاعری کی گئی۔ آپ کی بہادری کے قصے زبان زد عام ہوئے۔ شہیدِ وطن نواب اکبر بگٹی نے میر شیر محمد مری کو ” جنرل شیرو” کا خطاب دیا تھا۔ 1965ء میں ایوبی دور میں پہلی بار مری بگٹی علاقے پر بمباری کی گئی تو آپ نے گوریلا وار کی ابتداء کی اور برسوں تحریک مزاحمت میں عملاً حصہ لیا۔ ایک اندازے کے مطابق میر شیر محمد مری کے گوریلوں اور فوجی دستوں کے درمیان 1974ء تک 84 جھڑپیں ہوئیں جن کے سبب مری علاقہ میں کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ سینکڑوں گھر منہدم ہوگئے اور ہزاروں گھرانے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔
شیر محمد مری نہ صرف ایک عظیم گوریلا کمانڈر تھے بلکہ آپ بلوچی زبان و ادب کے معروف ادیب اور محقق بھی تھے۔ آپ کی متعدد کتابیں بلوچستان شاعری پر سند تسلیم کی جاتی ہیں۔
میر شیر محمد مری کابل سے وطن واپسی کے بعد کافی علیل ہوگئے تھے۔ کچھ عرصہ کوہلو اور کوئٹہ میں رہے لیکن افاقہ نہ ہونے کی وجہ سے علاج کے لیے پھر انڈیا چلے گئے۔ وہاں کچھ افاقہ ہوا۔ 12 مئی کو وطن آنے کی تیاری کررہے تھے کہ 11 مئی 1993ء کو آپ کو دل کا دورہ پڑا۔ جو جان لیوا ثابت ہوا۔ آپ کی میت بذریعہ طیارہ کراچی کے راستے کوئٹہ لائی گئی اور پھر ایک جلوس کی صورت میں کوہلو پہنچی۔ وہاں آپ کا جنازہ پڑھایا گیا اور ہزاروں سو گواروں نے آپ کو آپ کے آبائی قبرستان” نیسوبا” میں سپردِ خاک کیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں