محمکہ معدنیات حکام کے رپوٹ کے مطابق گذشتہ سال 71 واقعات میں 92 کانکن جانبحق جبکہ 200 سے زائد زخمی ہوئیں، جانبحق افراد کا تعلق زیادہ تر دوسرے صوبوں اور افغانستان سے تھا۔
بلوچستان کے کوئلہ کانوں میں موت کی منظر کشی جاری رہا، مچھ، ہرنائی، شاہرگ، دکی اور چمالنگ سمیت دیگر علاقوں کے کانوں میں مختلف حادثات میں کئی کانکن مزدور جانبحق ہوئے ہیں۔
کانکنوں کے مطابق کوئلہ کانوں میں عدم سہولیات مزدوروں کی موت کی اصل وجہ ہے تاہم اموات کے اس سلسلے کو روکا نہیں جاسکا ہے، اس سے قبل 2018 میں 121 کانکن جانبحق ہوگئے تھے جبکہ جبکہ رپورٹ کے مطابق 2019 میں تین سو زائد کانکن جان کی بازی ہارگئے تھے۔
کانکنوں کا کہنا ہے کہ کان مالکان اور حکومت کو مزدوروں کے جانوں کی پرواہ نہیں جبکہ چیف انسپکٹر مائنز کے مطابق مزدور حفاظت کے تدابیر پر عمل نہیں کررہے ہیں۔
محمکہ معدنیات کے پچھلے سال کے رپوٹ کے مطابق اس سال کان میں کرنے والے مزدوروں کے حادثات میں کمی ہوئی ہے لیکن کانکنوں کے مطابق سہولیات کا فقدان تاحال برقرار ہے۔
محمکہ معدنیات کے مطابق بلوچستان کے 6 کوئلہ کان ہیں، 2020 میں کان کنی کے دوران مٹی کا تودا گرنے سمیت مخلتف حادثات رونماء ہوئیں جبکہ سب سے زیادہ حادثات دکی کوئلہ کان میں پیش آئے۔
خیال رہے بلوچستان میں زیرِ زمین کان کنی زیادہ تر ‘پلر اینڈ روم’ طریقے سے کی جاتی ہے، جو کہ کان کنی کا سب سے خطرناک طریقہ ہے اور دنیا بھر میں اس طریقے کا استعمال بند کردیا گیا ہے۔
بلوچستان میں پچھلے دس سالوں میں اب تک ڈیڈھ سو کے قریب گیس کے دھماکے ہوئے ہیں، جس میں سینکڑوں مزدوروں کی ہلاکت ہوئی ہے۔
ان تمام واقعات میں بدترین واقعہ سال 2011 میں مچھ کے علاقے میں پیش آیا، جہاں کان میں میتھین گیس بھرنے سے دھماکا ہوا تھا اور اس دھماکے کے نتیجے میں 52 مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ حالات تب بگڑ گئے تھے جب وہاں مزدوروں کو بچانے کے لئے مشینری ناپید تھی اور آس پاس کے لوگوں کو بیلچوں اور ہاتھوں کا استعمال کرکے زمین کھودنا پڑا تھا۔