بانک کریمہ کے لیے ہر موسم کا چاند ماتم کرتا ہے – محمد خان داؤد

130

بانک کریمہ کے لیے ہر موسم کا چاند ماتم کرتا ہے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی مزدور بیٹی حیات کی ماں اورکیچ شہر کی مظلوم بیٹی بانک کریمہ کی المنا ک ہونے کی خبریں اخبار کے بلیک باکس میں جگہ نہیں بنا پائیں۔ جبکہ پاکستانی اخباروں کے تراشے بے ہودہ خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ مجھے یاد آ رہا ہے شہید شاہنواز بھٹو کا وہ پستول جو اسے پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات انقلابی نے تحفے میں دیا تھا۔کیونکہ یہ بات اس افسوس کی نہیں ہے، جس پر لفظی مذمت کی جائے۔یہ وہ تلخ حقیقت ہے، جو انسان کے اندر میں غصے اور کرودھ کے کئی طوفان برپا کر دیتی ہے۔ جب بلوچ بیٹیوں کی جوانیاں اور بوڑھی ماؤں کے بوڑھے جسموں کے بوڑھے آنسوؤں کو پاکستانی میڈیا میں جگہ نہ ملے (یہ الگ بحث کا موضوع ہے کہ آنسو بوڑھے ہو تے ہیں یا نہیں؟) اور ان کی پوتیاں ان ہی کے خون میں سُرخ ہو جائیں تو پھر قانون فروش وردیوں کو انصاف کی اپیل کرنے کے بجائے انسان اپنی روح کے ریگستان میں اس گم ہوئے دیس کی تلاش کرتا ہے۔ جو کبھی اتہاس میں بابا مری کا دیس تھا،بالاچ کا دیس تھا، ہانی شہ مرید کا دیس تھا،جئیند کا دیس تھا،حمل کا دیس تھا۔

ایسی گھڑیوں میں تو بالاچ کی دھرتی پہ تمپ کوٹ کے گھوڑے
”سرمچار!سرمچار۔۔۔“
کی صداؤں بھری آوازوں سے دوڑتے نظر آتے ہیں۔
اور ان کے پیروں کے نشان ہر حساس انسان اپنے سینے پر محسوس کرتا ہے۔
جس کو اتھاس کا شعور ہے، جو تاریخ میں دیکھ سکتا ہے۔
اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ایسا خوف،ایسا ظلم اس سے پہلے اس دیس میں کبھی نہ تھا۔
بلوچ دھرتی کے وہ لُٹیرے،ڈیتھ اسکواڈجن کے لُٹیرے ہاتھ بھی بیٹیوں کے سروں پہ ہاتھ رکھ کر بغیر واردات کے یوں ہی لوٹ جایا کرتے تھے۔ آج اس دھرتی پہ ایسا کوئی دن نہیں جس دن کسی معصوم لڑکی کی عزت تار تار ہونے کی خبر بے غیرتی کا اشتہیار بن کر اخبار میں نہ چھپے۔

ایسی صورت میں ہم کون سے حکمرانوں کا پتا پوچھیں؟ہم ان کرداروں کو کیوں بُلائیں جو کیمروں کے ساتھ ایک فوٹو سیشن کا اہتمام کرکے ایک عدد بیان جا ری کرتے ہیں۔ ہما رے دیس کی وہ بیٹیاں جو لال عروسی جوڑے میں اُٹھائی جاتیں ان پر ایدھی اور چھیپا کے ناموں والی چادریں ڈالی جا تی ہیں۔اور انسانی حقوق میڈیائی ڈرامہ کرنے والے اس کو ایک موقعہ جان کر اُڑ کر آجاتے ہیں ایسے المناک واقعات پر،،راجہ گدھوں،،جیسے کرداروں کو بلانے کے بجائے ان شہیدوں کی مزاروں پر آوازیں کیوں نہ دیں جو اپنے دیس کی مٹی سے پھر سے اُٹھنے والے جذبے سے ہیں۔کیونکہ مرے ہوئے دیس کی مٹی کو اپنے پیروں سے روند کر چلنے والے قانوں کے حاکم تو اپنے زندہ جسموں کی مٹی میں دفن ہیں!
وہ دل جو کبھی بھی مر نہیں سکتا۔
وہ دل جو کسی مٹی جیسی ماں سے پھر بیج بن کر نکلنے کو بے تاب ہے۔

ایک ایسے دل والی وہ شہزادی بھی تھی۔جس کو جدو جہد کی جلا طنی کے دوران پردیس میں شہید کیاگیا۔اس دیس کی بیٹیوں کے وجودوں میں دانت ڈالتے کتوں جیسے کرداروں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان انسانوں کو موت نہیں ما ر سکتی جو ایک انقلابی خواب کے سبب سپنا بن گئے۔ایسا سپناجو کہ پورا نہ ہو تے دیکھ کر ہر روز شام کو سورج شرم سے ڈوب جاتا ہے۔

جس کے لیے ہر موسم کا چاند ماتم کرتا ہے
شہیدبانک کریمہ بھی اس دیس کی وہ دودو اور دریا خان ہے۔جس کے لیے تاریخ شہیدوں کی ماں کی ماند کالا لباس پہن کر کسی گم نام کوٹ کی برج سے دیکھتی رہتی ہے۔امر جلیل نے کسی ماں کی آنکھوں میں یقین کی جوُت دیکھ کر لکھا تھا کہ
”عاشق اور شہید لوٹ آتے ہیں!“
وہ لوٹ آئے گی
وہ جس کے شہر کی ایک ماں اپنی عزت کے تار تارہونے کے بعد فریاد بن کر تھانے پونچھی۔وہ کیسے نہیں لوٹے گی؟وہ جس دیس کی ماں کا جواب جوان بیٹا قتل ہو جائے اور وہ خدا کو تلاشتی رہے تو وہ کیسے نہیں لوٹے گی؟
جب دیس کی مائیں بغیر منزلوں کے مسافر بن گئی ہیں تو وہ کیسے نہیں لوٹے گی؟
جب دیس کی بیٹیاں کئی کئی سالوں سے اپنے باباؤں کو منتظر ہیں تو وہ کیسے نہیں لوٹے گی؟

جب دیس کی بیٹیاں بن باباؤں کے ہی جوان ہو رہی ہیں اور سب سے اپنے باباؤں کا پتا پو چھ رہے ہیں تو وہ کیسے نہیں لوٹے گی؟
اس کے گاؤں سے کچھ دور برمش اپنی ماں کو رو رہی تھی۔اور ماں اپنے سینے میں گولی کھاکر برمش کو چھوڑ چکی تھی، وہ لوٹ آئیگی۔کیونکہ قبرستان جانے والا ہر ایک راستہ چیخ بنا ہوا ہے۔

وہ لوٹ آئیگی، کیونکہ اسے بلوچ دیس کے سبھی شاعروں،دانشوروں قلم کاروں،کالم نگاروں نے بھلا دیا ہے۔اور وہ جنہیں لکھنا نہیں آتا وہ بس ان کی برسیوں پر لکھتے ہیں ان کے الفاظ خاص معنوں،خاص تاریخ سے پہچانے جا تے ہیں۔

ایسے موقعے جب بھی کسی دیس کی مٹی پہ آتے ہیں۔تو پھر نااُمیدی اُمید بن جا تی ہے۔
بانک کریمہ!بلوچستان کی نئی اُمید بن کر سامنے آئی ہے
بانک کریمہ بلوچستان کی نا اُمیدی میں نئی اُمید ہے!
جب بھی دھوپ میں دھرتی دھول بن کے اُڑتی ہے تو ریگستان کے صحرا کے ذرے کروڑوں،اربوں آنکھیں بن کر آکاش کو تکتے ہیں۔یہ وہی گھڑی ہے۔جب یہ دیس اپنے وجود میں گم ہوگیا ہے۔ وہ گم ہو تے وجود میں ہی گم ہوتے شہیدوں کا پتا پوچھ رہا ہے۔

دھرتی کو ایک عورت کے روپ میں دیکھنے والے انقلابی انسان عورت کو بھی ایک دھرتی کے روپ میں دیکھتے ہیں۔اس لیے یہ مت سمجھو کہ بس برمش کی ماں اور حیات کو گولی لگی ہے۔ پر ایسا سمجھنا چاہیے کہ اس دیس کو گولی لگی ہےاور دیس کے عزت تار تار ہونے پر قانون فروش وردیوں سے شکایت نہیں کی جا تی۔اس وقت بس وطن کے با غیرت بیٹوں کی راہ تکی جا تی ہے۔

اس لیے ہما ری آنکھیں بار بار شہیدوں کے اس قبرستان کی طرف اُٹھ رہی ہیں جہاں پر مدفون غیرت کی بے چینی میں یک بھونچال اُٹھ رہا ہے۔

،،کیا شہید اور عاشق لوٹ آئینگے؟،،یہ سوال ان سیاست دانوں سے مت پوچھوجن کا پیشہ ہی جھوٹ بولنا ہے۔جو کتوں کے کاٹے کی ویکسین بھی کھاجاتے ہیں اور اپنے کتوں کو خوشبو دار سرف سے نہلا کر ان کے ساتھ سیلفیاں لیتے ہیں اور ان کتوں کو اٹالین صوفوں پر اپنے ساتھ بٹھاتے ہیں۔جن کا کام ہی مکر کرنا ہے۔ایسی گواہیاں بس شاعروں سے لی جا تی ہیں۔اس لیے اس سوال کا جواب ایاز سے پوچھو وہ آپ کو بتائیگااور صرف سندھی میں ہی نہیں وہ پورے ملک کو سمجھنے والی بولی اردو میں وہ حقیقت بیان کرتے کہے گا کہ
،،قصہ حاتم نہیں
یہ ایک سچی بات ہے
گوشہ بر آواز ہو
سُن کے مٹی بولتی ہے
جام نندو!کب تلک سوتے رہو گے
نیند میں رو تے رہو گے!!
آ کہ ہم سنگِ لحد کو توڑ دیں
آ کہ پھر جینے سے رشتہ جوڑ دیں،،

تاریخ کا یہ دور بھی ولن والا ہے۔یہ دور جس میں صرف تاریکی ہے۔ایسے دور میں ہی نٹشے کا کردار دن کی روشنی میں بھی لالٹین لیے سچ کی تلاش میں نکلا تھا۔جب بیٹیاں،مائیں سرِ عام لوٹی جائیں تو پھر ایسی صورتحال کو دیس کے اُوپر حملہ نہ سمجھنا پاگل پن ہی ہوگا۔

کیا ہماری آنکھیں اب بھی اس پستول کی طرف نہ دیکھیں جو فلسطین کے رہنما یاسر عرفات نے شہید شاہنواز بھٹو کو انقلابی امانت کے طور دیا تھا
بلوچستان کے غیرت مند بیٹوں کو پھر سے آنا ہوگا
کیوں کہ یہ دھرتی ایک ماں اور ایک بیٹی کی ماند بس ایک چیخ بن گئی ہے۔
اور بانک کریمہ کے لیے ہر موسم کا چاند ماتم کرتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں