بانک کریمہ بلوچ کی جسد خاکی کو تحویل میں لینا قبضہ گیر پالیسیوں کی انتہاء ہے – بی ایس او آزاد

662

بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بانک کریمہ بلوچ کی جسد خاکی کو کراچی ایئر پورٹ پر سکیورٹی اداروں نے تحویل میں لے کر سخت سکیورٹی حصار میں اُن کے آبائی علاقے پہنچا رہے ہیں جبکہ عوام کو آخری دیدار اور قومی اعزاز سے دور رکھنے کےلیے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال قبضہ گیر پالیسیوں کی انتہاء ہے۔

انہوں نے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ کو بلوچ سماج میں ایک قومی رہنماء کی حیثیت حاصل ہے اور وہ بلوچ قومی تحریک کی ایک سرخیل رہنماء تھی۔ انہوں نے بلوچ قومی تحریک کو دوام بخشنے کےلیے سیاسی مزاحمت کا راستہ اپنایا اور ہمیشہ ہی سے علم و شعور کا پیکر بنی رہی، ریاستی بربریت اور ظلم و ستم کے خلاف بانک کریمہ ایک سیسہ پلائی دیوار بنی رہیں اور قومی شعور کی خاطر انہوں نے دریائے سندھ سے لیکر مکران تک احتجاجی جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں پر قدغن کے باعث جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے اور بلوچ کیس کو عالمی دنیا تک پہنچانے کےلیے بیرون ملک سرگرم رہیں۔ سیاسی حوالے سے سرگرم رہنے اور جہد مسلسل کا استعارہ بننے کی وجہ سے بانک کریمہ ہمیشہ سے قبضہ گیر کی آنکھوں کو کٹھکتی رہی ہے۔ انہیں اُن کی سرگرمیوں کی وجہ سے دھمکیاں دی گئی اور اُن کے خاندان کے کئی افراد کو قتل کر دیا گیا۔ بانک کریمہ بلوچ کا شمار بلوچ قومی تحریک کے اولین خواتین کرداروں میں ہوتا ہے اور اُن کی سحر انگیز شخصیت کی وجہ سے آج ہزاروں بلوچ خواتین مختلف محاز پر بلوچ قومی تحریک میں عظیم کردار ادا کر رہی ہیں۔

اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ کا کینیڈا کے شہر ٹورونٹو میں قتل بلوچ نسل کشی کا تسلسل ہے۔ ریاست ایک جانب بلوچ رہنماؤں کو قتل کرتی ہے جبکہ دوسری جانب اُن کی لاشوں کو سخت سکیورٹی حصار میں دفن کی جاتی ہے۔ ریاست ایسے خوف اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے جہاں عام عوام کو اُن کے رہنماؤں کے قتل پر ماتم کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ بانک کریمہ بلوچ کے جنازے اور آخری دیدار کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا قبضہ گیر پالیسیوں کی انتہاء اور عالمی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔