ایک ادھورا گیت ڈاکٹر منان بلوچ کے نام! – محمد خان داؤد

183

ایک ادھورا گیت ڈاکٹر منان بلوچ کے نام!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کیسی مماثلت ہے اور کیسی حیرانگی ہے، جب آج سے پانچ سال پہلے بی این ایم کے سیکرٹری جنرل آزادی پسند رہنما ڈاکٹر منان بلوچ مستونگ میں اپنے نازک نفیس جسم پر گولیوں کی بوچھاڑ برداشت کرتے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھرتی کو ایسے تھام رہے تھے جیسے کوئی دریا میں ڈوب رہا ہو اور اس کے ہاتھوں میں دریائی گھاس ہوتی ہے اور وہ دریائی گھاس کو تھامنے کہ بعد یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب وہ محفوظ ہے جن ڈوبتے،لزرتے،کانپتے ہاتھوں میں تھوڑی سے دریائی گھاس کے لیے لطیف نے کہا تھا کہ
”ایسے غیرت مند بنو
جیسے دریائی گھاس
یا تو اپنے تھامنے والے کو بچا لیتی ہے
یا خود بھی ان کے ساتھ ڈوب جاتی ہے“

کیسا عجب اتفاق ہے اس دن بھی ہفتے کا دن تھا اور آج بھی ہفتے کا دن ہے
پر یہ اتفاق کا دن نہیں کہ دھرتی کے بہادر بیٹوں کے جسم لہو لہو ہو رہے ہوں تو جب بھی ان کے ہاتھ میں دھرتی کا ماں جیسا دامن ہاتھ میں ہو
اور آج بھی دھرتی پر قابض ایسی بے ہودہ باتیں کرتے ہوں کہ
”کریمہ کے جنازے پر بلوچستان میں کوئی کرفیو جیسی صورتحال نہیں تھی“

آج سے پانچ سال پہلے آج ہی کے دن جب ڈاکٹر منان بلوچ دھرتی کا بیٹا اپنے جسم پر بھونکتا بارود برداشت کر رہا تھا تو ڈاکٹر منان بلوچ کے ہاتھ میں ماں جیسا دھرتی کا دامن تھا اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے دھرتی کا دامن تھامیں الوداعی الفاظ میں کہہ رہا تھا کہ
”مراقبت از مادر زمینی ام بیسار نار احت کنندہ است!“
”میری دھرتی جیسی ماں کا خیا ل رکھنا یہ بہت دُکھی ہے“
ایسے بیٹے جب دھرتی پر،دھرتی کے لیے لہو لہو ہوکر گرتے ہیں
تو دھرتی انہیں اپنی بانہوں میں لے لیتی ہے
ہو بہ ہو ایسے جیسے کوئی پہلی بار ماں بننے والی لڑکی اپنے بچے کو محبت سے بانہوں میں لیتی ہے۔

اس دن ڈاکٹرمنان بھی لہو لہو ہوکر گرا
اور دھرتی آگے بڑھ کر اپنے بیٹے کو اپنی بانہوں میں لے لیا
اس دن ڈاکٹر منان بلوچ ہو بہ ہو دھرتی ماں کا پہلا بچہ تھا
اور دھرتی ہو بہ ہو ان لڑکیوں کی طرح تھی جو پہلی بار ماں بنتی ہیں
اور یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ وہ خوش ہیں یا شرما رہی ہیں
پر وہ بے حد خوش ہو تی ہیں۔

اس دن دھرتی ماں کی بانہوں میں لہو لہو دھرتی کا بیٹا تھا!
پر اس دن لہو لہو ہو تے بلوچ رہنما کے ہاتھوں میں دریائی گھاس نہیں تھی پر وہ دھرتی تھی جو اپنے شہیدوں کو کبھی فراموش نہیں کرتی۔ وہ دھرتی ہے۔ ماں ہے، وہ دریائی گھاس نہیں کہ یا تو بچا لے یا ساتھ ڈوب جائے! پر دھرتی اپنے بیٹوں کو اپنے دامنوں میں ایسے لے لیتی ہے جیسے پہلی بار ماں بننے والی لڑکی اپنے بچے کو بانہوں میں لیتی ہے!اور جب بات اور کچھ آگے بڑھتی ہے جب بچہ دھرتی کے عشق میں اپنے نازک جسم پر آتشی بارود سہا ہو تو دھرتی اس کے لیے روتی بھی ہے۔اور جب اور بات مزید کچھ آگے بڑھے جب کسی دھرتی،سچ اور آزادی کے عاشق کو دھرتی پر بھونکتی بندوقوں کے منہ میں دیا جائے تو دھرتی دیوانی ہوجا تی ہے اور ان کی قبر پر بیٹھ جا تی ہے جو دھرتی کے لیے مارے گئے ہوں ان کی قبروں پر سورج کی سلامی کرواتی ہے،بارشیں برساتی ہے۔چاند کو کہتی ہے یہیں پر ٹھہرا رہے اور تمام تر چاندنی یہیں پر لُٹاتی رہے۔ بادلوں کو کہتی ہے یہاں پر سایہ فگن رہیں۔ان قبروں پر ہلکی ہلکی بارش اور برف باری جا ری رہتی ہے کیونکہ وہ دھرتی کے نرالے شہید ہو تے ہیں جو صرف اور صرف زمیں کو مقدس جانتے ہیں اور اپنی جان ایسے ہی دے جا تے ہیں جیسے سرمد نے جان دی جیسے منصور نے جان دی ویسے ہی ڈاکٹر منان بلوچ نے جان دے دی۔

شہیدوں کی قبروں پر تمام صبیحیں تمام شامیں ٹہر رہتی ہیں، کیونکہ وہ دھرتی کے عشق میں شہید ہوئے ہوتے ہیں اورپھولوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ ان قبروں پر جب تک کھلتے رہیں جب تک ان قبروں میں امانتاً سو رہے ہیں
تمام سرخ کفن کے ساتھ!
لہو لہو جسم کے ساتھ!
اور تاریخ اور دھرتی ایسے بیٹے کو کیسے فراموش کر سکتی ہے جو لہو لہو ہو تے وقت بھی دھرتی پر بسنے والے انسانوں کو کہہ گیا ہو کہ
”مراقبت از مادر زمینی ام بیسار نار احت کنندہ است!“
دھرتی ایسے شہیدوں کو کبھی فراموش نہیں کرتی
دھرتی تو تاریخ کو حکم دیتی ہے کہ وہ جائے اور جا کہ دھرتی کے بیٹوں کو سلامی پیش کرے!
اس کی مثا ل ہم بانک کریمہ کے کیس میں دیکھ چکے ہیں کہ کیسے تاریخ عشق کو سلامی دے رہی ہے
ویسے ہی تاریخ ڈاکٹر منان کو سلامی دے رہی ہے
تاریخ کے ہاتھ کبھی نہیں تھکے گے جب عشق کی ہاتھ نہیں تھکتے تو تاریخ کے ہاتھ کیسے تھک سکتے ہیں؟
ڈاکٹر منان بلوچ عشق ہے اور پو ری دھرتی تاریخ عظیم تاریخ
تاریخ اپنے عشق کو ضرور سلامی پیش کریگی
اور اس کے لیے ایسا گیت ضرور گائیگی کہ اس کیآنکھوں میں بسنے والے خواب تتلی بن کر اُڑنے لگیں
اوراس کے جسم کے گھاؤ بھرنے لگیں
ہم نہ گائیں
بلوچستان پر قابض کامورا شاہی نہ گائے
جام کمال اور سردار نہ گائیں
پر عشق
اور دھرتی کو گانے سے کون روک سکتا ہے؟
طلوع ہو تے چاند اور سورج
برستے بادلوں کو گانے سے کون روک سکتا ہے؟
بوندوں اور سفید گالوں جیسی برستی برف کو گانے سے کون روک سکتا ہے؟
اول مٹی
آخر مٹی
مٹی زندہ باد
مٹی کو گانے سے کون روک سکتا ہے
نہ میں
نہ وہ
ایسا گیت جس سے شہیدوں کے لہو بھر جائیں
مائیں مسکرائیں
اور محبوبائیں اپنے لبوں پر دنداسا ملیں
من برای او ترانه ای خواهم خواند
که در آن بادها همراه خواهند شد
باران خواهد بارید
پروانه ها با هم خواهند بود
رنگها و عطرها همراه خواهند بود
و زمین با مادر خواهد بود
که همه زخمهایش را التیام می بخشد
شسته می شود
چیزی که او عاشق زمین برای زمین تحمل کرد
لبخند خواهد زد
و زمین به او سلام می رساند
من برای او ترانه ای خواهم خواند … ”
اصلا
ترجمہ
’’میں اس کے لیے اک گیت گاؤں گا
جس میں ہوائیں ساتھ ہونگی
بارشیں ساتھ ہونگی
تتلیاں ساتھ ہونگی
رنگ و خوشبوئیں ساتھ ہونگے
اور دھرتی ماں ساتھ ہوگی
جس سے اس کے وہ سب زخم سل جائیں گے
دُھل جائیں گے
جو اس نے دھرتی کے عشق میں دھرتی کے لیے سہے
وہ مسکرائیگا
اور دھرتی اسے سلامی دے گی
میں اس کے لیے اک گیت گاؤں گا۔۔۔۔۔۔‘‘
نا تمام


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں