یہ موت زندگی ہے
تحریر: ودار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قوم نے ہمیشہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم و بربریت کیخلاف جدوجہد کیا ہے اور دوسرے تمام مظلوم انسانوں کیلئے آواز بلند کیا ہے۔ علم و شعور سے لیس بلوچ نوجوان جو کسی بھی خوف و لالچ میں آئے بغیر اپنی قوم، وطن اور انسانیت کو بچانے کیلئے بر سر پیکار ہیں وہ اسی ظلم کے تلے پلے بڑھے ہیں۔
ایسے میں قومیت اور انسانیت سے عاری قابض پاکستان جو خود کردار میں کسی وحشی درندے کو مات دے وہ آکر بلوچ قوم کو عالمی دنیا کے سامنے جنگلی اور وحشی گردانے، یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوئی۔ ایسے تمام کارناموں میں نام نہاد میڈیا اور ان کے تعلیمی ادارے برابر کے شریک ہیں۔ قابض ریاست نے بلوچ قوم پر ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ نسل کشی، لاپتہ، زندان، تعلیم سے دور، اجتماعی قبریں اور بہت سی ایسی اور اس سے دردناک ظلم و ستم قابض ریاست کی طرف سے بلوچ قوم کو ملا ہے یہ ظلم و ستم آج بھی مذید شدت کیساتھ جاری ہے۔
جب دنیا کے باقی تمام اقوام جو اس وقت خود کو آزاد ریاست تصور کرتے ہیں اپنی نظر میں وہ انصاف اور آزادی کو اہمیت دیتے ہیں۔ کیا انہیں زنجیروں میں جکڑا یہ سرزمین نظر نہیں آتا یا وہ تاریخ سے بیگانہ ہیں؟ کیا بلوچ انسان نہیں؟ اگر تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں اور پھر بھی خاموش ہیں تو نہ وہ آزاد ہیں اور نہ ہی انسانیت کیلئے ان کو کوئی ہمدردی ہے بس ان کے زبان پر قدغن لگا ہے۔
یہ جو انسانیت کے نام پر ادارے کھول کے بیٹھے ہیں انہیں تو ذرا برابر بھی شرم نہیں آتا خود کو Champion of Humanity کہتے ہوئے۔ کیا انہوں نے کبھی بھی اس بات کی زہمت کی ہے کہ قابض پاکستان کو مقبوضہ بلوچستان کے بارے میں سوال کرے؟ کیا پاکستانی میڈیا اور صحافیوں سے یہ کہا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل کیوں ہیں اور بلوچستان میں پاکستانی جارحیت کو cover کیوں نہیں کرتے؟
آج بھی دنیا میں بیشتر انسان ظلم و بربریت کے تلے دبے ہیں لیکن انسانیت کے چیمپین کہلانے والوں کا بس نہیں چلتا کیونکہ جس کے پاس طاقت ہے وہی سب کچھ ہے، چیمپین بھی وہی ہے اور وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، آج دنیا میں بس طاقت کو عزت ہے انسانیت کو نہیں۔
انسانیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں؟ آپ بس اپنے گھروں کا خیال رکھنا، مظلوم انسانوں میں انقلابی جنم لیتے ہیں وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا انتقام خود لیں گے، آپ بس اسی طرح تماشائی بننا اور یہ بھی ذہن نشین کرنا کہ تاریخ کی بے رحمی خاموش تماشائیوں کا نام و نشان اس دنیا سے مٹا دیتا ہے۔
آج بلوچ قوم کے انقلابی نوجوان ظلم کے خلاف مزاحمت کی راہ پر گامزن ہیں، بلوچ تحریک اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے اور ظالم شکست کی جانب، اب ان باشعور نوجوانوں کو کوئی نہیں روک سکتا اور ان کی سوچ کو بھی نہیں دبایا جا سکتا۔ آج بلوچ نوجوان ظالم دشمن کے ہر چال سے بخوبی واقف ہیں اور اس کی ہر سازش کو ناکام بنا رہے ہیں۔
آج بلوچ نوجوان یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ انہیں اپنی قوم و وطن کیلئے قربانی دینی ہوگی اور دشمن کیخلاف فدائی بن چکے ہیں۔ وطن کے فرزند بلوچ لبریشن آرمی کے فدائی یونٹ مجید بریگیڈ میں حصہ لے کر خود کو قوم و وطن کی بقاء کیلئے قربان کر رہے ہیں۔ مجید بریگیڈ کے فدائیوں میں درویش سے لیکر پاکستان اسٹاک ایکسچینج (کراچی) پر حملہ کرنے والے فدائی سلمان حمل، تسلیم بلوچ، سراج کنگر اور شہزاد بلوچ تک سب نے قومی آزادی کیلئے یہ موت کا راستہ خود اپنے لئے چنا، کیونکہ وہ جانتے تھے یہ موت زندگی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔