گوریلا جنگ آخر کب تک؟
تحریر: مُلا امین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں کوئی بھی شخص،گروہ یا قوم جب اپنےبنیادی انسانی حقوق حاصل کرناچاہتا ہے تو وہ شروع میں کوشش کرتا ہے کہ پرامن طریقے سے اپنے حقوق حاصل کئے جائیں، اس کے لئے وہ پُرامن جدوجہد کے تمام طریقے اپناتے ہیں. حقوق کی جنگ محکوم اور حاکم کے درمیان شروع ہو جاتی ہے ہرشخص کوشش کرتا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے اپنے حق اور زندگی گزارنےکو ترجیح دے وہ آخری حد تک یہی کوشش کرتا ہے کہ انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو وہ عدالت احتجاج ہڑتال جلسہ جلوس اور ہر پرامن طریقہ استعمال کرتا ہے تاکہ اپنے مقصد کو حاصل کیا جائے لیکن دوسری طرف بالادست طبقہ/ریاست ان تمام راہوں اور طریقوں کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے اور اس پُرامن جہدوجہد کو دبانے کے لئیے اپنی پوری طاقت کا شدت سے استعمال کرتا ہے محکوموں کے لئیے تمام راستے بند کر دیے جاتے ہیں ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے اور اُنھی پرامن طریقے سے جہدوجہد کرنیوالے لوگوں کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے یا انھیں تا بہ محشر غائب کردیا جاتا ہے تو وہی پر امن افراد/ اقوام اپنے بقا اور مقصد کے حصول کی خاطر مجبور ہو کر بندوق اٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جنگ کی طرف راغب ہو جاتے ہیں، ابتداء میں وہ جنگ چند لوگوں کے گروہ کی شکل میں لڑتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی تعداد کم ہوتی ہے اور اُن کے پاس اتنے ہتھیار بھی نہیں ھوتے، اسی وجہ سے وہ کبھی کبھی اپنے عوام کے اندر نمودار ہو جاتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں جنگ کو منظم کرنے اور آگے لیجانے کے لئیے وہ اپنے آپ کو منظم کرتے ہیں اور اپنی تعداد و وسائل بڑھا نے کی طرف توجہ دیتے ہیں اور مناسب طاقت حاصل کرنے تک زیرزمین چلے جاتے ہیں اور اپنے ٹھکانوں اور ساتھیوں کے بارے میں کبھی نہیں بتاتے ہیں ابتدا میں ” مارو اور نکل جاو” کی پالیسی اپناتے ہیں۔ ان چھوٹے پیمانے پر لڑی جانی والی جنگوں کو دنیا گوریلا جنگ کا نام دیتا ہے .گوریلا جنگ ایسی جنگ ہے جو ایک چھوٹی مگر متحرک طاقت کسی بڑی مگر کم متحرک روایتی طاقت یا فوج کے خلاف لڑی جاتی ہے یہ ہسپانوی زبان کے لفظ guerrila سے نکلا ہے جس کا ترجمہ چھاپہ مار ہے ایسی جنگ میں عام طور پر چھپ چھپ کر حملے کرکے نقصان پہنچایا جاتا ہے اس میں حتی الوسع کھلی لڑائی نہیں کی جاتی.
گوریلا جنگ دراصل ایک تسلسل ہے جس میں ایک طرف چھوٹے پیمانے پر حملے، گھاتیں (چھپ کر حملہ) اور دھاوے بولے جاتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں اس مرحلے میں چھاپہ ماروں کو شدت پسند، آزادی پسند یا دہشت گرد بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں اوپر کی سطح پر منظم و مربوط سیاسی و فوجی حربہ کار موجود ہوتے ہیں۔ اور نچلی سطح پر چھوٹی اکائیاں ہوتی ہیں جو حملوں، دھاووں اور گھاتوں میں مصروف ہوتے ہیں اور انتہائی متحرک ہوتے ہیں.
مسلسل چھوٹے چھوٹے حملوں سے وہ اپنے دشمن کو تھکا دینے کی کوشش کرتےہیں جب ان کی آواز دنیا اور ان کے قوم کے ہر فرد تک پہنچ جاتا ہے اور ان کے نوجوان مرد عورت اس جنگ کی بڑے پیمانے پر حمایت کرنا شروع کردیتے ہیں تو ان کی افرادی قوت بڑھ جاتی ہے تو وہ زیرزمین سے نکل کر سامنے آجاتے ہیں اور جنگ دوسرے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔
دوسرے مرحلے میں جنگ کا دائرہ پھیل جاتا ہے اور ایک مربوط جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے اگرچہ طاقت و وسائل ایک بڑی مقابل فوج کے مقابلے میں کم ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کی مثالیں چین میں ماؤزے تنگ کی جنگ، ویتنام میں امریکی افواج کے خلاف جنگ اور کسی حد تک فلسطینیوں کی 1970 اور 1980ء کی دہائیوں میں اسرائیل کے خلاف چھاپہ مار کاروائیاں شامل ہیں.
دنیاکے اندر بلوچ قوم کی اپنی تاریخ ہے انھوں نے اپنے دشمنوں کو ہر وقت شکست دی ہے اس بات کو تاریخ دان بہتر جانتے ہیں موجودہ بلوچ قومی تحریک اسی مزاحمت کا تسلسل ہے. اس سے پہلے جنگوں اور مزاحمت کی نسبت یہ طویل جنگ تصور کی جاتی ہے 48 سے لیکر 2000 تک گزشتہ 52 سالوں میں بلوچ قوم قابض پاکستانی ریاست کے خلاف چھوٹے پیمانے پر گوریلا جنگ لڑتی آرہی ہے . گزشتہ دو دہائیوں میں بلوچ تقریبا پورے بلوچستان میں اپنی دفاعی جنگ لڑ رہی ہے. بلوچ قوم کی قربانیوں کیوجہ سے کسی حد تک دنیا کے اندر بلوچ جُہد آزادی اپنی شناخت رکھنے میں کامیاب رہی ہے لیکن ابھی تک اپنی پوری قومی طاقت دکھانے میں ناکام رہی ہیں کیونکہ ان کے ذہنوں میں یہ بات گردش کرتی ہے کہ ہم اس جنگ کو بدلنے کا طاقت نہیں رکھتے ہیں یا بین الاقوامی برادری کے مفادات ہمارے ساتھ نہیں ہیں عالمی دنیا ہمارے ساتھ ہمیں بطور ایک ملک تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ہم خود بھی ابھی تک مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں یہ ایک حقیقت کہ ہم متحدہونے میں مشکلات کا سامنا کررےہیں، اگر ان مشکلات کو قابو پانے میں کامیاب رہے تو ہم اس چھوٹے پیمانے پر لڑی جانیوالی گوریلا جنگ کو بڑے پیمانے کے روایتی جنگ میں بدل سکتے ہیں، حالیہ کچھ عرصے میں مکران کے محاز پر بلوچ راجی اجوئی سنگر کے حملوں اور مجید برگیڈ کے فدائین نے ثابت کر دیا کہ ہم میں بڑے حملے کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے اور اگر ہم اپنے اسی طاقت کو اور منظم کریں تو عنقریب ہم روایتی جنگ کیطرف جاسکتے ہیں.
بلوچ قوم کو اب پوری طرح سے سامنے آکر دشمن سے نبرد آزما ہونا چاہئے مسلسل بیس سالوں سے گوریلا جنگ پر انحصارکرنا نہیں چاہئے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے ہم ایک زندہ قوم ہیں ہمیں ایک دوسرے کے قریب ہونا ہے ایک دوسرے کو کُمک و مدد پہنچانا ہے اور اپنے قومی مفادات کو اولین ترجیح دینا ہے صرف اسی طرح ہی ہم اپنے دشمن اور عالمی دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ہم اپنی دفاع کی اہلیت رکھتے ہیں اور ایک آزاد وطن کا حصول ممکن ہوسکے گا.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔