گوادر
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
آج اگر کنفیوشس ہوتا اور اسے کوئی چیلا یہ خبر سناتا کہ
”گرو گوادر کو سلاخوں سے جکڑا جا رہا ہے!“
تو یہ درد بھری خبر سن کر کنفیوشس تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاتا اور پھر جواب دیتا کہ
”جن پہاڑوں پرمجھے علمی باتیں کندہ کرنا تھیں، جس ساحل پر چل کر محبوب کے نقشِ پا تلاش کرنے تھے، جس سمندر کے پانی کو سیاہی بنا کر سب سچ اور سب جھوٹ لکھ دینا تھا کیا اس گوادر کو جکڑا جا رہا ہے؟“
اور چیلا جواب دیتا جی ہاں
اور کنفیوشس کہتا کہ”اس سے پہلے وہ پہاڑ مضبوط زنجیروں میں جکڑے جائیں چلو میرے ساتھ مجھے کچھ کہنا ہے اور تم گوادر کے پہاڑوں پر کندہ کرتے جانا“
یقینا گوادر کے مٹیالے پہاڑ ایسے ہی ہیں اگر یہاں پر کئی صدیاں پہلے کنفیوشس کا جنم ہوتا تو وہ ان پہاڑوں پر ضرور اپنی سنگی کتابیں تحریر کرتا جنہیں آج میں بھی پڑھتا اور آپ بھی۔ پر ان پہاڑوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ ان پہاڑوں کے دامنوں میں،نیلے نیلے پانیوں،اور ساحلوں کے پاس وہ سردار پیدا ہوئے جو نہ اپنے آپ کو جان پائے،نہ نیلے پانی کو جان پائے اور نہ ہی اس ساحل کو جس ساحل پر اگر محبوب چلے تو پیروں کے نشان بن جائیں اور جو پیروں کے نشان بنیں ان میں پانی ٹھہر جائے اور جو پانی ٹھہرے وہ شہد سے میٹھا ہو۔
پر اب ایسا کچھ نہیں،گوادر کا ساحل اور پانی تو پہلے ہی پہنچ سے دور تھا اب تو وہ دھرتی بھی مجرم ٹہری اور اس دھرتی پر زنجیریں کسی جا رہی ہیں۔ یہ بات کوئی نئی اور انوکھی نہیں یہ ایک پری پلان ہے جس میں سندھ اور بلوچستان کے پانیوں میں موجود جزائر پر قبضہ کرنا ہے اور وہ تمام دھرتی کو زنجیریں پہنانی ہیں جو کوسٹل ایریاز کے حدود میں آتی ہیں اور اس کی شروعات بلوچستان کے ساحلوں سے کی جا چکی ہے جو اس دھرتی کے سب سے بڑے مزاحمت کار ہیں
جو دلیل سے بات کرتے ہیں
جو بات سے بات کرتے ہیں
جو بندوق سے بات کرتے ہیں
پہلے ان پر ٹیسٹ کیس کیا جا رہا ہے جب یہ دھرتی زنجیروں میں جکڑدی جائیگی تو سندھ کے لوگوں کی کیا مجال ہے جو اُٹھتے وڈیرے کے حکم پر ہیں اور بیٹھتے وڈیرے کے حکم پر ہیں، جس سندھ میں کوئی مزاحمت کا عنصر نہیں سندھ کی کافی دھرتی پہلے ہی جکڑی جا چکی ہے جس میں کراچی میں کئی بڑے پروجیکٹ چل رہے ہیں سکھر،نواب شاہ اور تھر پر بھی قبضہ کیا جا چکا ہے ان بندوق برداروں کے چھاڑتے پہلے ہی نیلے نیلے پانیوں پر قابض ہیں ساحلوں پر قبضہ گیریت حد سے زیادہ ہے، رہے یہ جزائر ان پر بھی کچھ پر کام ہو رہا ہے اور باقیوں پر کام جلد ہونے جا رہا ہے
سندھ تو لاہوتی کا سُٹا ہے
سندھ تو مرے ہوئے پیر کا مزار ہے
سندھ تو بوڑھا مجاور ہے جو مزار پر خالی پانی کے مٹکے بھر رہا ہے
سندھ تو سب کچھ جان کر بے خبر ہونے کی اداکا ری کر رہا ہے
کیوںنکہ سندھ جانتا ہے کہ اس کے گلے میں وڈیروں بھوتاروں،میروں پیروں،جاموٹوں،پاگاروں سیدوں شاہوں کا طوق پڑا ہوا ہے اور ان سب کے گلے میں وردی والوں کا طوق پڑا ہوا ہے
پر بلوچستان کو کیا ہوا ہے؟
کیا اب بلوچستان بھی سندھ کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے کہ جو ہوتا ہے ہو ہمیں کیا ہے ہمیں تو مل رہا ہے سندھ تو کلف زدہ وردی والوں کی حاضری لگا کر اپنی نوکری پکی کر بیٹھا ہے پر کیا بلوچستان بھی اس لائن میں نظر آ رہا ہے جہاں سب کچھ بٹتا ہے اور بکتا ہے پر دھرتی اور عزت کا سودا ہو جاتا ہے؟
اگر ایسا نہیں تو گوادر کے نینوں سے گرتے آنسو کیوں نہیں پونچھے جا رہے جب کہ پہاڑوں کے دامن میں موجود نیلے پانیوں سے لیکر امید کی شہزادی تک،ساحل کے اترتے چڑھتے پانیوں سے لیکر آر ڈی سی شاہراہ تک سب نو گو ایریاز بن چکے ہیں، اب جہاں دھرتی کے بیٹے اپنی شناخت بتانے کے عذاب سے گزر کر گھروں کو جا تے ہیں اور اپنی شناخت کے عذاب جو دہرا کر گھروں سے نکلتے ہیں جہاں کوئی بندوق بردار میاں چنو کا کسی بہرام گوادری کو زور دار آواز دے کر شور مچا کر بد تمیزی کر کے اسے کہتا ہے کہ
”اُوووووووووئے یہاں کیا کر رہا ہے؟“
اور پیچھے سے زور دار سیٹی اور گالی دیتا ہے
جب بہرام گوادری یہ ضرور سوچتا ہے کہ میں کسی غلط جگہ پر ہوں یا یہ بندوق بردار؟
اور وہ سوچتا ہے کہ وہ کہاں ہیں جو اس سے ووٹ لیکر گئے پھر لوٹے ہی نہیں!
گوادر جو محبوب کے گال پر تل مثل تھا
گوادرجو محبوب کی جھپی مثل تھا
گوادر جو فیضو بلوچ کے انداز مثل تھا
گوادر جو محبوبہ کے بھرے بھرے پستانوں مثل تھا
گوادر جو اک نئی چال تھا اک نئی ڈھال تھا
گوادر جو پھیکے پھیکے ہونٹوں پر لالی مثل تھا
گوادر جو بلوچستان کے نینوں مثل تھا
گوادر جو ساحل پر سمندر اور سمندر پر ساحل تھا
گوادر جو سب کچھ تھا
گوادر جو اب کچھ بھی نہیں
گوادر جو محبوب کی بانہوں جیسا تھا
گوادر جو محبوب کے سرخ سفید سندور چھرے جیسا تھا
گوادر جو محبوب کے گالوں جیسا تھا
گوادر جو محبوب کے بالوں جیسا تھا.
گوادر جو اپنا اپنا سا تھا
گوادر جو اب کچھ بھی نہیں
گوادر جو محبوب کو پہلی بار بوسہ دینے جیسا تھا
گوادر جو روتی ماں کے آنسوؤں جیسا تھا
گوادر جو ماں کے لہجے جیسا تھا
گوادر جو بولی جیسا تھا
گوادر جو بلوچی سازوں جیسا تھا
گوادر جو میٹھا میٹھا تھا
گوادر جو اپنا اپنا تھا
اب اس گوادر کو گالی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے
اب اس گوادر کو کیچڑ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے
اب اس گوادر کو احسان بنا کر پیش کیا جا رہا ہے
اب اس گوادر کو مجرم بنا کر زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے
میرا گوادر مجرم نہیں ہے
میرا گوادر معصوم ہے
مجھے بھا ری کرینوں والا گوادر نہیں چاہیے
میرے گوادر پر ترقی کا احسان مت کرو
مجھے میرا نیلگوں پانی والا گوادر لوٹا دو
مجھے میرا ساحل لوٹا دو
مجھے وہ گوادر لوٹا دو جس کے ساحل پر میرے محبوب کے پاؤں نقش ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔