گلابی رُخساروں پر گیلے پن کو رہنے دو – محمد خان داؤد

327

گلابی رُخساروں پر گیلے پن کو رہنے دو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

سیکس سے پہلے سب کچھ ہے،سیکس کے بعد کچھ نہیں!
مجھے اس سے بے حد پیار ہے، اتنا پیا رکہ نہ جتایا جائے، نہ بتایا جائے۔اتنا پیار کہ اب وہ پیار کی حدود سے نکل کر دیوانے پن کی دہلیزکو چھونے لگا ہے۔معلوم نہیں وہ پیار کی کون سی قسم ہے۔شاید ابتداء؟شاید انتہاء؟ شاید انتہاء بھری ابتداء؟ شاید ابتداء بھری انتہا؟

بس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیار کا پتوار ہے اور میں اسے کھینچے چلا جا رہا ہوں۔کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ محبت کا ساحل ہے میں اس میں ڈوبنا چاہتا ہوں۔کبھی ایسا ڈر لگتا ہے کہ وہ محبت کا بپھرا سمندر ہے اور اس میں سے ایسی لہریں اُٹھیں گیں جو مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گیں۔پر جتنا اس کے پاس ہوتا ہوں اتنی دوری محسوس ہوتی ہے۔اور وہ جتنا دور ہو تی ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ میرے پاس ہے ابھی ہاتھ بڑھاؤں گااور اس کی وہ چاندی کی صلیب سیدھی کر لوں گا جو اس کے گورے گلے میں کسی مصلوب مسیح کی مانند ہائل ہے۔وہ کیا ہے؟وہ کیوں ہے؟ایسے سوال بھی کبھی کبھار پریشان کرنے آجاتے ہیں۔

ایسے سوالوں پر سوچنے سے یہ ہی بہتر ہے کہ جو دل مانے اس پر ہی کھڑا رہا جائے اور دل کہتا ہے وہ محبت کی مورتی ہے جاؤ اس کے سامنے پیار کے اشلوک پڑھو!
مقدس کتابوں کی ورق گردانی کرو!
لحنِ داؤدی میں اسے بائبل کے گیت سناؤ!
اسے محبت کے بھجن سناؤ!
اداس مندروں کے سب اس کی چولی میں بھر دو
اسے بُدھ کی خاموشی سے واقف کرو!
اس کی سیاہ بادلوں جیسی زلفوں سے کھیلو
اس کے چاند کے جیسے چھیرے کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر اسے کہو
،،مجھے تم سے محبت ہے!،،
میں اپنے ہاتھ میں پتھر لیے پانی میں پھینک رہا ہوں کہ کتنی دور تک جا سکتے ہیں
اور وہ ندی میں اپنے پیر ڈبوئے نیلگوں پانی میں اپنا ہی عکس دیکھ رہی ہے
میں آگے بڑھتا ہوں جا کہ اس کا ہاتھ تھام لیتا ہوں اور اسے کہتا ہوں
،،سنو!،،
،،ہوں م،،
،،مجھے تم پیار ہے،،
وہ سنتی ہے مسکراتی ہے اور جواباً کہتی ہے
،،مجھے بھی!،،
پھر میرے ساتھ چلنے لگتی ہے۔مجھے محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب میرا پیار اپنی معراج کی طرف بڑھ رہا ہے۔جبھی تو اوشو نے کہا ہے کہ
،،جب پیار معراج کی طرف بڑھتا ہے تو اس کے آگے بس سیکس کی ندی ہی رہ جا تی ہے جس میں انسان تیرتا ہے۔ڈوبتا ہے۔تیرتا تیرتا ڈوبنے لگتا ہے۔اور ڈوبتا ڈوبتا تیرنے لگتا ہے،،
چلتے چلتے درختوں کی اُوٹ آجا تی ہے درختوں کے گھنے سائے میں نیچے ہری گھاس لہرا رہی ہو تی ہے کہیں کہیں جنگلی پھول اپنے ہونے کا پتا دے رہے ہو تے ہیں۔درختوں پر پپئیے بول رہے ہیں میں اسے کہتا ہوں
،،عاشی،،
وہ اپنے خیالوں میں گم جواب دیتی ہیں،،ہوں م،،
،،میں تمہیں NUDE دیکھنا چاہتا ہوں،،
جو دل میں ہوتا ہے کہ دیتا ہوں
وہ حیرت سے میرا منہ تک رہی ہو تی ہے
وہ کہتی ہے،،کیوں،،
،،محبت کی معراج چاہتا ہوں،،
میں جواب دیتا ہوں۔
وہ اپنے گورے بدن سے کپڑوں کا بار اتار دیتی ہے
اس وقت وہ مجھے وہ کونج لگتی ہے جسے اس کا ولر(ساتھی) اکیلے چھوڑ گئے ہوں
یا تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کارونجھر کے کور سے کوئی تراشی گئی گلابی مورتی ہو
لب خاموش ہو جا تے ہیں
دل اس کعبہ کے گرد پھرنے لگتا ہے۔
وہ اس وقت،،NUDE ART،،کا ایک شاہکار لگ رہی ہو تی ہے
اب بس اس کے گورے گلے میں چاندی کا مصلوب مسیح میرے بیچ ہائل رہتا ہے
وہ مصلوب مسیح اس کے گو رے پستانوں پر جھول جاتا
کبھی اِس پستان پر!
کبھی اُس پستان پر!

اس کے سینے سے پسینہ ایسے بہہ رہا تھا جیسے بند سیپی پر بارش کا پانی
مجھے یقین تھا اگر وہ پسینہ اس پستانوں میں جا سکتا تو مو تی بن کر نکلتا اگر مو تی نہیں تو سفید سفید دودھ کی دھاریں تو ضرور بن جاتا۔کپڑوں میں اس کے جسم کی رنگ بلکل سفید دودھ کی ماند تھی۔پر اب جب وہ کپڑوں کے بار سے آزاد تھی تو اس کے جسم کی رنگ سفید سے،ہٹ کر سندرو مائل گلابی ہو گئی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ دودھ میں کسی نے سندور ملا دیا ہو۔ایک نظر میں دیکھنے سے دودھ کی ماند سفید اور دوسری نظر میں سندور کی طرح گلابی
اللہ!وہ کیا تھی؟

وہ حجرہ ِ اسود کی ماند سفید ہی تھی پر اب اس پر حیا کا رنگ بھی چڑھ چکا تھا جو گلابی تھا اس لیے وہ سندور مائل سفید اور گلابی لگ رہی تھی
عاشی
،،ہوں م،،
میں تمہیں سیکس کرنا چاہتا ہوں
،،ہوں م،،
کچھ سوچتے ہوئے
،،تم محبت کی معراج چاہتے ہو نا؟!،،
،،جی،،
،،محبت کے معراج کے آگے کیا ہے؟!،،
معلوم نہیں
،،پر میں چاہتی ہوں کہ محبت کبھی اپنی تکمیل کو نہ پہنچے
محبت کی کبھی معراج نہ ہو
عاشق ہمیشہ محبت کی تکمیل کو ترستا رہے
اور عاشق ہمیشہ اپنی محبوبہ کو ایسے ہی چاہتا رہے
جیسے ابھی سیکس سے پہلے تم مجھے چاہ رہے ہو،،
داؤد سنو
ہوں م
جہاں محبت کی معراج ہے اس سے آگے بے وفائی کی گہری کھائی ہے
کیا تم مجھے سیکس کے بعد اس گہری گھائی میں گرانا چاہتے ہو، جہاں سوائے دلاسوں، بے وفائی کے آنسوؤں،انتظار کی اذیت کے سوا کچھ نہیں،،
نہیں نہیں میں ایسا ہر گز نہیں چاہوں گا
،،تو پھر سیکس کیوں؟

بس جسم بنا کپڑوں کے کافی نہیں؟پر ہاں اگر تم واقعی مجھے سیکس کرنا چاہتے ہو، تو میں موجود ہوں میرے پاس آؤ مجھ میں اپنا زہر اُنڈیل دو!پر سنو تم تو مجھ میں اپنا زہر اُنڈیل کر چلے جاؤ گے میں اس زہر کو اُٹھائے پھرتی رہوں گی دربہ در!میں اس زہر کو لیے کیسے جی پاؤں گی؟،،
پھر میں کیا کروں؟
،،تم میری سیاہ بادلوں کی مانند زلفوں میں بارش کے قطروں کے جیسے سما جاؤ
تم میرے ابھرے ہوئے پستانوں میں اپنے ہاتھوں کے لمس سے،،کُن فیکون،،سی بجلی بھر دو
تم میری نیل ساحلوں کی ماند آنکھوں کا پانی پی لو
تم میرے ناف پیالہ سے محبت کا جام پیو
میرے سینے سے مصلوب مسیح کو ہٹا کر چوموں
تم میرے پیٹ میں نور کے ہالے کی طرح سماجاؤ
تم میری مخروطی انگلیوں کو اپنی آنکھوں پر ایسے رکھو جیسے مریض خاک شفا کو اپنی آنکھوں پر رکھتے ہیں اور شفا پا تے ہیں
تم میری بانہوں میں کسی گھیری فکر کی طرح ہائل ہو جاؤ
تم میرا دکھ بن جاؤ
جو مجھے ہر وقت اشک بار رکھے
تم میرا سکھ نہیں بننا
تم!
تم!
تم!میرے گلابی رخسار کو چوموں
اتنا چوموں
اتنا چوموں
کہ ان پر تمہا رے ہونٹوں کا گیلا پن کسی اُوس کر طرح ٹھر جائے
اور میں ان رخساروں سے تمہارے ہونٹوں کا گیلا پن کبھی صاف نہیں کرونگی
سیکس سے پہلے بہت کچھ ہے
سیکس کے بعد کچھ نہیں!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔