کریمہ کو تتلی کے پروں اور بی ایس او کے سرخ پرچم کے ساتھ دفنا دو – محمد خان داؤد

167

کریمہ کو تتلی کے پروں اوربی ایس اوکے سرخ پرچم کے ساتھ دفنا دو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ اپنے ولر سے بچھڑی کونج تھی
وہ اکیلی کونج تھی
وہ کبھی نہ ما ری جا تی کہ ساتھ میں ہوتی
وہ اس لیے ماری گئی کہ وہ اکیلی تھی
مجھے نہیں معلوم کہ اسے پہلے اکیلے پن نے مارا،یہ شکاریوں نے؟
پر میں یہ جانتا ہوں کہ وہ اپنے ولر سے بچھڑی کونج تھی
اکیلی
اکیلی
سہمی
سہمی
وہ اُڑنا چاہتی تھی
پنکھوں کی مانند
تتلیوں کی مانند
اپنے پروں سے
دور آکاش کی وادیوں میں
وہ کونج تھی
پہلے اسے اکیلا کیا گیا
پھر اسے گھائل کیا گیا
پھر اسے مارڈالا

سوال یہ اہم نہیں کہ وہ کیوں مر گئی؟سوال یہ اہم ہے کہ اسے کیوں مار دیا گیا؟
سوال یہ بھی اہم نہیں کہ اسے محفوظ ملک میں کیسے ماردیا گیا؟
سوال یہ اہم ہے کہ اسے اپنی دھرتی سے بیدخل ہی کیوں کیا گیا؟
اگر بلوچ لیڈروں میں وہ دم ہوتا تو کریمہ جیسی بلوچ بیٹیاں اپنی دھرتی سے بے دخل کیوں ہو تیں؟

وہ اپنی دھرتی پہ رہتیں،وہ اپنوں میں رہتیں،وہ اپنا نصاب پڑھتیں،وہ اپنی بولی بولتیں،وہ اپنوں سے روٹھتیں،وہ اپنوں کو مناتیں،وہ اپنی دھرتی پہ پھول اُگاتیں،وہ اپنی دھرتی کے پھول چنتیں،وہ اپنوں کو دل سے اور اپنی دھرتی کو پیروں سے ناپتیں،وہ گاتیں،جھومتیں،باتیں کرتیں!
وہ اپنی بولی کی کتابیں لکھتیں،وہ اپنی بولی میں شاعری کرتیں،وہ اپنی بولی میں کتابیں پڑھتیں،
پر بلوچ لیڈر کو لیکر ایسا کچھ نہ ہوا
بلوچ سیاست کو لیکر ایسا کچھ نہ ہوا
بلوچ سیا ست کار نے ”باپ“ کا پلو پکڑا
اور اس کے ہاتھوں سے بلوچ بانک کی انگلی نکلی گئی
اور بلوچ بانک سیا سی میلے میں کھو سی گئی تنہا رہ گئی
اور ان کے ہاتھوں سے بلوچ بیٹیاں دور چلی گئیں
حالاں کہ اب تک کی بلوچ سیاست نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بلوچ سیاست کار سے بلوچ بانک زیا دہ بہادر ہے
ایسا کچھ کریمہ کے ساتھ بھی ہوا
وہ ٹورنٹومیں کی گلیوں کی رُلتی رہی،پر وہ تو چاہتی تھی کہ وہ تمپ کی گلیوں میں اُڑے
وہ غیر زباں کو سیکھتی رہی اور اپنی زباں کو ترستی رہی
وہ انگریزی ادب کو بھی بلوچی چاشنی کے ساتھ پڑھتی رہی
وہ رومن میں بلوچی لکھتی رہی
وہ انگریزی اخبارات کے حروف اپنی شہد سی میٹھی آنکھوں سے بلوچی میں جانچتی رہی
وہ شاہراہوں پر لگے انگریزی کے سائن بورڈوں کو بلوچی حروف سے جوڑتی رہی کہ
”یہ ہوتا تو کیا ہوتا!“
مجھے نہیں معلوم کہ وہ دیس سے دور تھی
یا دیس اس سے دور تھا
جو کچھ بھی تھا
پر دوری ضرور تھی
دیس کی کونج سے
یا کونج کی دیس سے
آکاش کی کونج سے
یا کونج کی آکاش سے
وہ اُڑنا چاہتی تھی پر دیس اپنا نہ تھا
وہ کہنا چاہتی تھی
پر بولی اپنی نہ تھی
وہ رونا چاہتی تھی
پر پرلوک میں کوئی کندھا اپنا نہ تھا

اب جب وہ دیس میں آئے گی تو اسے بہت سے کاندھے ملیں گے اور وہ کاندھے اسے وہاں پہنچا آئیں گے جہاں اس سے پہلے بہت سے آزادی پسند گئے۔

پر کون ہے جو ان بے شرم لیڈروں سے پوچھے کہ ان کریماؤں کے لیے ماحول ہی ایسا کیوں بن جاتا ہے کہ وہ اپنا دیس چھوڑ کر اپنا آکاش چھوڑ کر اپنا گھر چھوڑ کر اپنی گلیاں چھوڑ کر وہاں چلی جا تی ہیں جہاں انسان تو بہت ہو تے ہیں پر کوئی ایسی ماں اور کاندھا نہیں ملتا!
جہاں ہنسا جائے
جہاں رویا جائے
اب کریمہ بعد از قتل کے دیس کو آ رہی ہے
اس قتل کی ایف آئی آر کس پر کاٹی جائے؟
”باپ“پر
اس کے ”باپ“پر
”اس کے باپ“پر
یا”باپوں“کے باپ پر

یا ان بے شرم بلوچ لیڈروں پر جن سے نہ تو اپنی بیٹیوں کی حفاظت ہو تی ہے نہ اپنی دھرتی کی نہ اپنے پہاڑوں کی نہ اپنے وسائل کے جو بلوچ لیڈر کتے پالتے ہیں،سرداریاں کرتے ہیں اور کمداروں کے ریوڑ پالتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ دھرتی کی خدمت کر رہے ہیں۔

یہ کریمہ کی موت نہیں یہ ان بے شرم بلوچ لیڈروں کی موت ہے جن کی وجہ سے بلوچ دھرتی آج اس نہج پر پونچھ چکی ہے کہ بلوچ دھرتی پہ نہ بلوچ بیٹیاں محفوظ ہیں اور نہ بلوچ بیٹے،ابھی کتنے ماہ ہوئے ہیں ساجد
حسین کے جسم کو دفن کیے ابھی تو ساجد کی ماں اور محبوبہ کی آنکھوں کے آنسو خشک نہیں ہوئے ابھی تو ساجد کے قبر کی مٹی جوں کی توں موجود ہے،ساجد کو بلوچ دھرتی نے کتابوں اور آنسوؤں کے ساتھ دفن کیا تھا۔

کریمہ کو تتلی کے پروں اور BSOکے سرخ پرچم کے ساتھ دفن کر دو!
اب جب کریمہ کے گھائل وجود کو بلوچ دھرتی پہ لایا جا رہا ہے تو بلوچ دھرتی کے آنسو کون پونچھے گا؟
بلوچ دھرتی دردوں سے چور چور ہے
دھرتی رو رہی ہے
دھرتی کے آنسو پونچھو!
کاش کہ کریمہ کو اس کی سکھیاں یوں اکیلی نہ چھوڑتیں
کاش بلوچ دھرتی کریمہ کو یوں اکیلی نہ کرتی
کاش بلوچ دھرتی کریمہ پر یوں تنگ نہ کی جا تی کہ اسے اپنی دھرتی یوں چھوڑنا پڑتی
اور وہ ایسی اکیلی ہو جا تی
جیسے ولر سے بچھڑی کونج!
اور کریمہ ایسے قتل نہ کی جا تی
جیسے زمانہ پہلے مرشد فیض نے فرمایا تھا کہ
”شوپین کا نغمہ بجتا ہے
اک کونج کو سکھیاں چھوڑ گئیں
آکاش کی نیلی راہوں میں
اک چیل زور سے چھپٹا ہے
شوپین کا نغمہ بجتا ہے!“
اب تو کچھ نہیں
کچھ بھی تو نہیں
اب کریمہ کو تتلی کے پروں اورBSOکے سرخ پرچم کے ساتھ دفنا دو!
دیکھتے ہیں بلوچ دھرتی اس نئی قبر کا بار کب تک برداشت کر پا تی ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔