کریمہ تم اتنا تو انتظار کرتی – ریاست خان بلوچ

691

کریمہ تم اتنا تو انتظار کرتی

تحریر: ریاست خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کریمہ! جب سے تمھاری جدائی کی خبر میرے کانوں تک پہنچی ہے تب سے میری آنکھیں سوئی نہیں، یہ تب سے جاگ رہی ہیں، میں جب بھی انہیں بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ مناظر میرے سامنے گردش کرنے لگتی ہیں کہ تم کو کن حالات سے گذارا گیا، تمہیں کیسی موت دی گئی ہوگی۔

کریمہ! میں بار بار سوچ کر رو پڑتا ہوں کہ وہ کیسی جگہ ہوگی جہاں سے ان درندوں نے تمہیں اٹھایا ہوگا،کیا وہ کوئی سنسان جگہ رہی ہوگی جہاں تمھاری چیخیں کسی تک نہ پہنچی کہ کوئی تمہیں پچانے نہ آیا، وہ کتنے لوگ رہے ہونگے جن سے تم اکیلی نہتی نبردآزما رہی تھی، انہوں نے پہلے پہل تم سے کیا کہا ہوگا، یا سیدھا آتے ہی تمھیں دبوچ لیا ہوگا جیسے جنگلی جانور اپنے شکار پر جھپٹ پڑتے ہیں، انہوں نے شاید تمھارے منہ کو تمھاری سرخ ہونٹوں کو بھی اپنے گندے ھاتوں سے دبوچ لیا ہوگا کہ تمھاری چیخیں اندر ہی اندر دب جائیں، انہوں نے تمھاری نیلی آنکھوں پر سیاہ کپڑا باندھ دیا ہوگا وہ آنکھیں جن میں ہماری آنے والی نسلوں کی خوشحال مستقبل کے خواب سجے تھے۔ اور جب تم نے مزاحمت کی ہوگی تو وہ تمھیں گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے گئے ہونگے ویسے ہی جیسے جنگلی چیتا ہرن کا شکار کئے جانے کے بعد اسے اپنے منہ میں دبوچ کر گھسیٹتے ہیں۔

کریمہ! میں جن حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے کانپ اٹھا ہوں پتہ نہیں تم پر وہ حالات کیسے بیتے ہونگے، تم کتنا وقت ان درندوں کے نرغے میں رہی ہوگی انہوں نے تم سے کیا کیا پوچھا ہوگا، تمہیں کیا کیا کہا ہوگا یا سیدھے ہی موت دے دی ہوگی خدارا ایسا ہی ہو کہ وہ تمھیں اپنے پاس زیادہ دیر زندہ نہ چھوڑیں، وہ تمھیں موت دے دیں کیونکہ تمھارا ان کے ھاتوں زندہ رہنا ہمارے لئے تمھاری شہادت سے بھی بڑا عذاب ٹھرتا۔

کریمہ! اُس خیال سے روح تڑپ جاتا ہے کہ کوئی تمھیں مردہ حالت میں کسی ویرانے میں پھینک جائے جسیے کہ تم لاوارث ہو، تمھاری کوئی حیثیت نہیں۔

کریمہ! میں ابھی تھوڑی دیر پہلے تک تمھاری ایک ریکارڈڈ ویڈیو دیکھ رہا تھا، جس میں تم ہندوستانی وزیراعظم سے اپیل کر رہی تھی کہ وہ تمھارے دیش واسیوں کی امداد کریں، ان کو سہارا دیں لیکن بانک بار بار اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پے پہنچا کہ آپ کوئی اپیل نہیں کر رہی تھیں، آپ اپنے وجود، اپنے قوم کی وجود کو بچانے، آپ گوادر کے ساحل، تربت کے کجھوروں کے باغات اور کوئٹہ کے برف پوش پہاڑوں کو پچانے کی بھیک مانگ رہی تھیں اور میں سوچوں میں پڑگیا کہ حالات کے ستم نے آپ کو کس قدر مجبور کر ڈالا ہے آپ کی بے بسی آپ کے آنکھوں سے نمایاں تھی حالات کا جبر آپ کے الفاظ سے نمایاں تھا جنہوں نے میر چاکر و گہرام کی اولاد اور کمبر و حمل کی بہن کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ہے لیکن پھر خیال آیا کہ یہ اکیلے کریمہ کی آواز نہیں یہ بلوچوں کی اجتماعی آواز ہے ، یہ بلوچوں کی بحیثیت قوم بے بسی کا اظہار ہے اور کریمہ بس اس بے بس قوم کی ترجمانی کر رہی ہیں۔

کریمہ! میں نے کوئٹہ اور حب والوں کو تمھارے درد میں روتا دیکھا، دنیا بھر سے تمھارے قبیل کے لوگوں کو تمھارے لئے سوگوار پایا لیکن مجھے جو غم کھائے جاتا ہے وہ تمھارے ان بھائیوں کا ہے جن میں سے بہت سوں کو شاید تمھاری جدائی کا پتا ہی نہ ہو، تمھارے وہ بھائی جن کا لہو ہر روز اس بنجر دھرتی کو سیراب کئے دیتی ہے جو ہر روز تمھارے دھرتی کی عصمت کی حفاظت میں اپنی جان ہتھیلیوں میں لئے باطل قوتوں سے بھڑ جاتے ہیں، تمھارے وہ بھائی جو تمھارے دھرتی کے سنگلاخ پہاڑوں میں روپوش ہیں، جن کو زمانے نے،ظالموں نے ، غاصبوں نے اتنا مجبور کر دیا ہے کہ وہ کئیوں کی طرح تمھارے حق میں نعرے تک نہیں لگا سکتے، جب ان کو تمھاری جدائی کا پتا چلے گا تو وہ کس کے ساتھ اپنا غم بانٹیں گے، وہ کیسے تمھارے جدائی کا غم برداشت کر پائیں گے۔

کریمہ! یہ تمھارے جانے کا وقت نہیں تھا، تم نے جس دن سے جوانی کی دہلیز پے قدم رکھا ہے تب سے نہ تم نے خوشی کا کوئی دن دیکھا اور نہ ہی تمھاری دھرتی نے یہ ہر گذرتے دن خون کا تقاضا کرتی ہے، تمھاری دھرتی پیاسی ہے،اس بنجر خاک کو سیراب کرنے کو ہر روز اس کے بچے اپنا سینا چاک دیتے ہیں ، اپنا لہو بہاتے ہیں، مائیں اپنے بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیر کر انہیں قربان گاہ کیلئے رخصت کرتی ہیں، بوڑھے باپ اپنے جوان بچوں کے جنازوں کو کندھوں پے اٹھائے قبرستانوں کو سفر کرتے ہیں۔

کریمہ! تم کم از کم اتنا تو انتظار کرتی کہ وطن زادوں کا خون رنگ لاتا، تمھاری دھرتی کی پیاس بجھتی، اور یہ خود چلا اٹھتی کہ بس اب اس سے زیادہ نہیں، تم کم از کم اتنا تو انتظار کرتی کہ تمہاری زمیں لاوا اگلتی اور اس پر قابض جابر قوتوں کو جلا کر راکھ کرتی۔ تب ایک بار بس ایک بار تمھارے پاؤں اس پر پڑتے، یہ تمھیں پہچان جاتی، اپنے سینے سے لگاتی اور پھر تم جب چاہتی اس کے آغوش میں سو جاتی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔