کریمہ بلوچ مبینہ قتل: خضدار اور پنجگور میں احتجاج، ریلیاں

340

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے جاری، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر آج بلوچستان کے اضلاع خضدار اور پنچگور میں عوام کی بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج مظاہرے کیئے۔

تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے شہر خضدار میں خواتین و بچوں سمیت طلباء طالبات کی بڑی تعداد نے مرکزی شاہراہ پر ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا کر ریلی نکالی اور مظاہرہ کیا۔

اس موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے بانک کریمہ بلوچ کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ بلوچ کا قتل بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ، جبری گمشدگیوں کا وہی تسلسل ہے جو سالوں سے جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب بلوچستان میں سیاست شجر ممنوعہ تھی تو کریمہ بلوچ نے سخت ترین حالات میں بلوچ خواتین اور نوجوانوں کی رہنمائی کی۔

مقررین نے کہا کہ اسی خضدار شہر میں ہمارے بھائیوں کو شہید کیا گیا، تو کریمہ بلوچ اور انکی بہنوں نے بھائیوں کے لیے انصاف مانگا آج ہم ایک بہن کی خاطر انصاف کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ محفوظ نہیں لیکن اب دیار غیر میں بھی بلوچ کا خون بہایا جارہا ہے۔

اس موقع پر مظاہرین نے کہا کہ کریمہ بلوچ کے مقصد اور جدوجہد کو بلوچستان کا ہر فرد اپنا مقصد سمجھتی ہے اور یہ جدوجہد جاری رہے گی۔

دریں اثناء بلوچستان کے ضلع پنجگور میں احتجاجی مظاہرہ اور ریلی نکالی گئی۔

کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف پنجگور میں احتجاجی ریلی اور مظاہرے میں خواتین و بچوں سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے بڑی تعداد میں حصہ لے کر کینیڈین حکومت سے مطالبہ کیا کہ کریمہ بلوچ کی قتل میں ملوث کرداروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو مقتل گاہ بنانے والوں نے اب یورپ اور کینڈا کو بلوچ خون سے رنگین کیا ہے۔

مظاہرین نے کہا کہ انتہائی شرم کی بات ہے اب قاتل کے دفاع میں کریمہ بلوچ کو انڈین ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے۔ کریمہ بلوچ بلوچستان کی بیٹی تھی اور آج پورے بلوچستان کی آنکھوں میں آنسو ہیں، ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ بلوچستان میں قاتل کے لیے بیزاری اور نفرت پایا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ بلوچستان بھر کریمہ بلوچ کی مبنیہ قتل کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں اور گذشتہ روز بلوچستان کے شہر پسنی اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے والے سیاسی کارکنوں کو انتظامیہ کی جانب سے ہراساں کرنے کی خبریں سامنے آئی تھی۔