معروف بلوچ خاتون رہنماء اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف آج بروز اتوار کو بلوچستان کے علاقے خاران اور بارکھان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر عوام کی بڑی تعداد نے احتجاجی مظاہرے کیئے۔
تفصیلات کے مطابق خاران شہر میں خواتین، بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا کر مارچ کیا اور کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل میں ملوث کرداروں کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ کریمہ بلوچ کا قتل بلوچستان کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔ کریمہ بلوچ بلوچستان کی ایک مضبوط اور مستحکم آواز تھی اس لیے اسے قتل کیا گیا۔
مقررین نے کہا کہ اہل بلوچستان جانتی ہے کہ قاتل کون ہے، اور بلوچستان کی سڑکوں پر سراپا احتجاج یہ ہزاروں لوگ مہذب دنیا کے سامنے قاتل کو بے نقاب کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کریمہ اب مزاحمت کی علامت بن چکی ہے.
مظاہرین نے کینیڈا حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ صاف و شفاف تحقیقات کرکے بلوچستان کو انصاف دیئے جائے۔
بلوچستان کے ضلع بارکھان سے آمد اطلاعات کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر بارکھان میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج اہل بلوچستان غم زدہ اور ماتم کناں ہیں۔
انہوں نے کہا بلوچ بیٹی کی لاش نے اہل بلوچستان کو متحد کیا ہے، آج بارکھان سے گودار تک بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔ جبکہ گذشتہ روز بلوچستان کے گرین بیلٹ نصیر آباد، اوستہ محمد میں سیاسی جماعتوں سمیت طلباء تنظیموں کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرہ اور شمع روشن کیے۔
قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرین نے کہا کہ کریمہ بلوچ ایک بہادر نڈر خاتون تھی جنہوں نے بلوچستان کو سیاسی شعور بخشی ہے۔
خیال رہے کہ کینیڈا میں مقیم جلاوطن معروف بلوچ خاتون رہنماء اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف گذشتہ ایک ہفتہ سے بلوچستان کے مختلف اضلاع، شہروں اور دیہی علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، اور مظاہرین کا موقف ہے کہ کریمہ بلوچ کو بلوچستان کی قومی جہد آزادی کی پاداش میں قتل کیا گیا ہے۔