بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تمپ اور ضلع آواران میں پاکستانی فورسز نے خواتین کو بانک کریمہ بلوچ کے مبینہ قتل کیخلاف خواتین سمیت دیگر افراد کو احتجاج سے روک دیا۔
بلوچ رہنماء اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق چیئرپرسن کے کینیڈا میں مبینہ قتل کیخلاف گذشتہ دنوں سے بلوچستان کے مختلف علاقوں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے کوئٹہ، خضدار، خاران، نصیر آباد، سوراب، گوادر، تربت سمیت کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں احتجاج ریکارڈ کیئے جاچکے ہیں۔
مظاہروں میں خواتین کی بڑی تعداد کو حصہ لیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ جبکہ ان کے ہمراہ مختلف مکاتب کے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ان مظاہروں میں شرکت کررہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق آج کریمہ بلوچ کے مبینہ قتل کیخلاف ان کے آبائی علاقے تمپ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالنے کیلئے ان کے گھر کے سامنے خواتین اور بچوں سمیت دیگر افراد جمع ہوئے تو انہیں فورسز اہلکاروں نے احتجاج سے روک دیا۔
علاقائی ذرائع کے مطابق فورسز اہلکاروں نے مظاہرین سے ان کے موبائل فون چھین لیئے، اور وہاں پر موجود لوگوں کو گرفتار کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔
کوئٹہ میں گذشتہ دنوں اس حوالے سے احتجاج کی رہنمائی کرنے والی طالب علم رہنماء ماہ رنگ بلوچ نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر لکھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام بانک کریمہ کے آبائی قصبے کے رہائشیوں کو پرامن ریلی کی اجازت نہیں دی جارہی، خواتین کو ہراساں کیا گیا ہے اور انہیں احتجاج میں حصہ نہ لینے کیلئے دھمکی دی گئی ہے۔ عوام کو سیاسی تحریکوں سے روکنا ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
Residents of Tump the native town of Banuk #KarimaBaloch aren’t allowed to go to Peace full rally organised by BYC tump. Females have been harassed and threatened not to participate.Suppressing the masses from political movements is violation of their rights.#WeAreKarimaBaloch
— Mahrang Baloch (@MahrangBaloch5) December 28, 2020
دریں اثناء آواران میں لوگوں کو احتجاج سے روکنے کی اطلاعات ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی آواران نے آج پریس کلب سے یو بی ایل چوک تک احتجاج کرنے کا اعلامیہ جاری کیا تھا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہمارے کارکنوں کو ریاستی اہلکاروں نے ٹیلیفونک کالز پر دھمکیاں دی ہیں کہ اگر انہوں نے احتجاجی ریلی نکالی گئی تو ان کو اٹھا کر لاپتہ کیا جائیگا۔
کمیٹی کی جانب سے جاری کیئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ صبح آرمی کے اہلکاروں نے پریس کلب کو بند کرکے اہلکاروں کو تعینات کیا اور بازار میں خفیہ اداروں اور مقامی ڈیتھ اسکواڈز کی گشت ٹیم کو متحرک کرکے تمام لوگوں پر کھڑی نظر رکھی گئی۔ رات کو آواران کے علاقوں تیرتیج، سیاہ گزی، پیراندر، لباچ ڈنسر سمیت کئی علاقوں کامحاصرہ کیا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ آج ہمارے کارکنوں کو احتجاجی ریلی نکالنے سے پاکستان آرمی نے جبری طور پر روکا جس کے باعث آج بلوچ یکجہتی کمیٹی آواران اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کرسکا۔
خیال رہے دو روز قبل پسنی اور کوئٹہ میں واقعے کے حوالے سے احتجاج کے بعد خواتین اور دیگر کارکنوں کے گرفتاری کیلئے گھروں پر پاکستانی فورسز نے چھاپے مارے تھے۔ کوئٹہ میں اسد یوسف کے بہن کے گھر پر چھاپہ مارکر موبائل فونز ضبط کیئے گئے اور احتجاج کرنے پر تنبیہ کی گئی جبکہ پسنی میں شیراز اکبر کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تاہم وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔
علاقائی ذرائع کے مطابق پسنی میں مختلف گھروں پر چھاپوں کے دوران فورسز اہلکار احتجاج میں شریک ایک لڑکی کے حوالے پوچھ رہے تھے۔
مذکورہ واقعات کے حوالے حکام کی جانب سے تاحال کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔