کریمہ بلوچ مبینہ قتل، تربت میں ریلی، مظاہرہ

450

بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر معروف بلوچ خاتون رہنماء اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف عوام کی بڑی تعداد نے احتجاجی ریلی نکالی اور مظاہرہ کیا۔

ریلی اور مظاہرے میں کیچ کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات سمیت خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شریک تھی،
اور ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا کر انصاف کا مطالبہ کررہے تھے۔

ریلی کے شرکاء نے تربت کے سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے شہر کے مرکزی شہید فدا چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

اس موقع پر محتلف قوم پرست جماعتوں، طلباء تنظیموں سمیت سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کریمہ بلوچ کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ کی ہمت حوصلہ اور جہد مسلسل نے آج تربت کو بیدار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج اتنی بڑی تعداد میں بلوچ خواتین کا سڑکوں پر نکل کر احتجاج یہ ثابت کرتی ہے کہ کریمہ بلوچ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔

مقررین نے کہا کہ بلوچ قومی جہد کی پاداش میں بلوچ سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کا قتل ہمارے جذبوں کو پست نہیں کرسکتا ہے۔

اس موقع پر مظاہرین نے کینیڈا گورنمنٹ سے پر زور اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ بلوچ کی قتل بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کی قتل، اغواء کا تسلسل ہے، لہٰذا صاف شفاف طریقے سے تحقیقات ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آج دنیا بھر میں بلوچ سراپا احتجاج ہیں اور ہم کینیڈا پولیس کی ابتدائی رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ مظاہرین نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی قاتل کو بلوچ قوم اچھی طرح جانتے ہیں مگر وہ قاتل انتہائی مکار اور چالاک ہے ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کو معلوم ہو کہ ہمارے دشمن نے بلوچستان کو یورپ اور کینیڈا تک پھیلا دیا ہے۔

خیال رہے کہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (بی ایس او آزاد) کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی لاش 21 دسمبر کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں لیک شور نامی علاقے کے نزدیک ایک جزیرے کے پاس پانی میں ملی تھی۔

اس مبینہ قتل کے خلاف آج چوتھے روز بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاج ہورہے ہیں اور احتجاجی مظاہرے میں شریک لوگ کریمہ بلوچ کی مبنیہ قتل کو ریاستی قتل قرار دے رہے ہیں۔