بلوچستان پر جبری قبضہ و بربریت اور دوسری جانب حق خودارادیت کی قرارداد پاکستان کا دوغلاپن ہے۔چیئرمین خلیل بلوچ

302

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہے کہ نوآدیاتی اور غیر ملکی قبضے کے خلاف حق خودارادیت کے لئے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کرکے بلوچ قومی موقف کی تصدیق کردی گئی ہے کہ اب بھی دنیا میں نوآبادیاتی نظام اور غیر ملکی قبضہ گیریت موجود ہے اور ان میں سے سب سے بڑا قبضہ گیر خود ریاست پاکستان ہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا جس طرح تاریخ اور ارتقاء کے اصولوں کے خلاف پاکستان تشکیل دیا گیا، اسی طرح اس ریاست کا ہر اقدام تضاد سے بھرپور ہے۔ ایک جانب پاکستان بلوچ سمیت محکوم قوموں کی سرزمین پر قابض ہے، دوسری جانب اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں قوموں کی حق خودارادیت کا قرارداد پیش کرتا ہے۔ یہ اس صدی کا سب سے بڑا مذاق ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس قانون کو فائلوں کی زینت بنا کر عملدرآمد نہیں کرایا تو یہ ایک اور ٹریجڈی ہوگی۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا حق خودارادیت اقوام متحدہ کے بنیادی چارٹر میں شامل ہے۔ مختلف مواقع پر اقوام متحدہ اس باب میں قراردادیں پاس کرچکا ہے۔ اب بھی دنیا میں نوآبادیاتی نظام اور قبضہ گیریت بہت بڑا مسئلہ ہے اور اقوام متحدہ اپنے چارٹر پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ یہ پاکستان کی کامیاب پالیسی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کا اپنے پالیسیوں پر عملدرآمد نہ کرانے کا نتیجہ ہے۔ اس بے عملی سے پاکستان جیسے قبضہ گیر بھی دیدہ دلیری سے قبضہ گیری کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قراردادیں پیش کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم پاکستان کے فریم ورک میں کسی بھی عنوان پر حق خودارادیت کا مانگ نہیں کرتا ہے کیونکہ بلوچستان پر پاکستانی قبضہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ پاکستان کا اقوام متحدہ میں حق خود ارادیت بشمول نوآبادیاتی، بیرونی اور غیر ملکی تسلط کےخلاف قرارداد پیش کرنے کے بعد بلوچستان پر قبضہ ختم نہ کرنا خود قرارداد کی خلاف ورزی ہے۔ 11 اگست کو اعلان آزادی، بلوچ کے دونوں ایوانوں کا پاکستان کے ساتھ الحاق سے انکار ہماری تاریخ کا اہم ترین باب ہیں۔ اس وقت کے عالمی سازشوں سے پاکستان بلوچستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا، جس کا برطانوی حکام چند سال قبل اپنے افشا کردہ ڈاکومنٹ میں بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ پاکستان کو بلوچستان پرقبضے میں ان کا آشیرواد حاصل تھا۔ ایسے واضح حقائق کی رو سے حق خودارادیت کے بجائے بلوچ قوم براہ راست قومی آزادی کا مانگ اور بلوچستان پر سے قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا اقوام متحدہ کے چارٹر میں حق خودارادیت کے شامل ہونے کے بعد کئی قرارداد اس امر کی توثیق کرتے ہیں کہ نوآبادیات دنیا میں ایک بہت بڑا اورسنگین مسئلہ ہے جو بلوچ سمیت کئی اقوام کو درپیش ہے۔ اقوام متحدہ کا پہلا فریضہ قوموں کے بنیادی مسائل کاحل ہے لیکن افسوس کہ اقوام متحدہ آج تک بلوچ قومی مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرنے میں ناکام ہے۔ ہم اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ تاریخ اور تاریخی حقائق کی روشنی میں بلوچستان سرزمین پر پاکستانی قبضے کو ختم کرنے کے لئے اپنا کرداراداکرے۔ اس قبضہ گیری کا تذکرہ موجودہ قرارداد میں بھی موجود ہے۔ اس کی روشنی میں بلوچ سمیت کئی محکوم اقوام کو قابض سے نجات حاصل ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں اقوام متحدہ کے سفیر منیر اکرم کا کہنا کہ قرارداد کی منظوری سے کشمیری عوام سمیت تمام لوگوں کی حمایت میں ہمارے قانونی، سیاسی اور اخلاقی معاملے کی توثیق کی ہے تاکہ وہ ہر طرح سے دستیاب غیر ملکی قبضے کے خلاف خود ارادیت کے لئے جدوجہد کر سکیں۔ منیر اکرم کا کہنا کہ حق خودارادیت کی قرارداد نے قبضے اور محکومیت کے تحت زندگی بسر کرنے والوں کی مدد کرنے کے بین الاقوامی عہد کا تجدید کیا ہے“۔ خلیل بلوچ نے کہا کہ ہم انہیں یاد دلانا چاہتے ہیں وہ کشمیر اور دوسروں کی وکیل بننے سے پہلے خود بلوچستان پر سے قبضہ ختم کریں وگرنہ دنیا ان کی باتوں کے جھانسے میں آکر صرف ایک علاقہ پر فوکس کرکے اس قرارداد کو کاغذ کا ٹکڑا بنادیں گے۔

اس قرارداد کے متن کی سفارش گزشتہ ماہ جنرل اسمبلی کی تیسری کمیٹی نے کی تھی، جو معاشرتی، انسانی اور ثقافتی امور کے معاملات کو ڈیل کرتی ہے۔ اسمبلی سے سماجی ترقی کے بارے میں رپورٹ لیتے ہوئے حق خودارادیت کا ادراک کرنے میں رکاوٹوں کو دور کرنے کی اہمیت پر زور دیا“۔ قرار داد واضح کرتا ہے کہ خود ارادیت تمام لوگوں کا بنیادی حق ہے، بشمول ان افراد کے جو نوآبادیاتی، بیرونی اور غیر ملکی تسلط میں ہیں۔

خلیل بلوچ نے کہا کہ ہمیں حیرت ہے کہ پاکستان جیسی دہشت گرد اور قابض ملک نے کیوں اس طرح کے قانون کی تجدید کیلئے قرار داد لایا ہے۔ نہ صرف ہمیں بلکہ پوری دنیا کو اس میں پاکستان کی چالبازی کو بھانپ کر اپنی پالیسیاں ترتیب دینا چاہئیں۔