لہو کا چراغ – فتح بلوچ

872

لہو کا چراغ

تحریر: فتح بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ روایات میں دشمن سے گلہ شکوہ کرنا بزدلی کی علامات ہے۔ بلوچ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دشمن کو مار دیا جاتاہے، بدلہ لیا جاتا ہے، بلوچ جب کمزور ہوتا ہے تو انتظار کرتا ہے مگر بدلے کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔

  بِیر بلوچانی داں دُو سد سال ءَ
چوں لَسہّیں آھوگ ءَ دُو دنتان اِنت۔

 میں بلوچ ہوں، میں گلہ نہیں کررہا بلکہ اطلاع دے رہا ہوں کہ آج آپ نے ہماری خاتون سنگت کو ہم سے چھین لیا ہے۔مگر میں سوگوار ہر گز نہیں ہوں کیونکہ ہم میں سے ہر کوئی جب اس مقدس جنگ کا حصہ بنتا ہے ان کی منزل شہادت ہے۔ دیر یا جلد اس مقدس جنگ کے عظیم منزل شہادت تک پہنچ کر ہمیشہ کے لئے امر ہوجاتا ہے۔ مجھے نہ ریاست سے گلہ ہے اور نہ میں اس ریاست سے انصاف کا بھیک مانگتا ہوں، کیونکہ بانک کریمہ تاریک راہوں میں نہیں ماری گئی بلکہ وہ اس جدوجہد کے اعلیٰ ترین رتبہ یعنی شہادت پر پہنچ چکی ہے۔ وطن کی عشق میں گرفتار عاشقوں کے لئے وطن پر قربان ہونا عشق کی انتہا ہے۔  بلوچ نے یہ راستہ شعوری طور پر چن لیا ہے۔ یہ جنگ بلوچ پر مسلط نہیں ہوئی بلکہ بلوچ نے یہ جنگ چھیڑ دی ہے۔   بلوچ  کی لاش بلوچستان کے سنگلاح پہاڑوں سے ملے یا یورپ کی برفیلی وادیوں میں قاتل کو ڈھونڈنے کی ضروت نہیں ہے بلوچ کو مرنے سے پہلے پتہ ہوتا ہے ، ان کو کون قتل کرے گا۔

مجھے پتہ ہے کہ بحیثیت بلوچ میں کسی بھی شکل میں کیوں نہ ہوں ریاست کی نظر میں ریاست کا دشمن ہوں۔ ریاست پاکستان نے مجھے دشمن مان لیا ہے مگر پست اخلاقی اور کم ظرفی ان کی راہ میں حائل ہیں کہ وہ سرعام اعلان کردے کہ ہر خاص و عام بلوچ سے میری جنگ ہے۔

اعلان نہیں کررہا مگر  میدان میں ہر خاص و عام بلوچ کو مار رہا ہے۔

میں صبا دشیاری کی شکل میں استاد رہا اپنے وطن کے بچوں کو علم و دانش سے منور کررہا تھا، آپ نے مجھے قتل کیا۔ میں حبیب جالب کی شکل میں جمہوری طرز سیاست پر یقین کرکے جمہوری طرز سے آپ کے آئین و قانوں کے دائرے میں رہ کر اپنی حقوق کی بات کررہا تھا آپ نے مجھے ماردیا۔

میں قمبر چاکرو سنگت ثناء بن کر  طلبا سیاست سے اپنے انسانی حقوق پانے کی جدوجہد کررہا تھا آپ نے میری لاشیں مسخ کرکے پھینک دیئے۔ میں نے طالب علم بن کر تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی آپ نے مجھے  بغیر کسی جرم کے لاپتہ کرکے زندان میں ڈال دیا اورمیرے والدین  کو ناقابل برداشت کرب میں مبتلا کردیا۔

میں سیاست اور مزاحمت سے دور ہوکر حیات بلوچ کی صورت میں ایک عام طالب علم اور مزدور بنا آپ نے میری جسم گولیوں سے چھلنی کردیا ۔ تعلیم روزگار مزدوری سے دور ہوکر ڈرے سہمے ہوئے اپنے گھر میں چھپا رہا آپ نے رات کی تاریکی میں مجھے ڈھونڈ کر میرے گھر کے اندر میری معصوم بیٹی برمش بلوچ  کے سامنے میری جسم کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا، گو کہ آپ مجھ سے سرعام جنگ لڑرہے ہو مگر تسلیم  کرنے میں ہچکچا رہے ہو۔اور یہی خوش فہمی میں مبتلا ہو کہ آج نہیں تو کل یہ جنگ ختم ہوجائے گی۔

یہ آپ کی بھول ہے کہ بانک کریمہ بلوچ کو تحریک آزادی سے جسمانی طور سے جدا کرکے تحریک کمزور ہوجائے گی۔ یہ ہماری تاریخ ہے کہ جب بھی تحریک آزادی کی چراغ مدھم ہونے لگی ہے تو زمین زادوں نے خون دے کر چراغ کی روشنی میں توانائی بِخشی ہے۔

گوادر میں باڑ لگانا اور بلوچ کو مارکر تسلیم نہ کرنا یہ آپ کی دفاعی حکمت عملی اور شکست خوردہ ذہنیت کو واضح کررہا ہے۔ آج نہیں تو کل آپ کی شکست یقینی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔