شہید عرض محمد بلوچ آج بھی زندہ ہے – نور خان بلوچ

598

شہید عرض محمد بلوچ آج بھی زندہ ہے

تحریر: نور خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر ہم بلوچ قومی تحریک پر نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سے ایسے کردار نظر آ ئینگے، جنکے کردار کے بارے میں لکھا جائے تو میرے خیال میں ہزاروں سال لگ جائیں گے۔

ویسے بلوچ قومی تحریک میں ہزاروں بلوچ فرزندوں نے اپنے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے، مردوخواتین اور پیرو ورنا سب نے ایک تاریخ رقم کی ہے۔

آج میں ان میں سے ایک ایسے شخص کے بارے میں لکھنے کی کوشش کررہا ہوں، جنہوں نے اپنی سرزمیں کے لئے اپنی زندگی قربان کی ہے،
ویسے تاریخ میں ہم ایسے کرداروں کو یاد کرکے فخر محسوس کرتے ہیں جنہوں نے تاریخ کو اپنے خون سے سجایا ہے۔

ان میں سے ایک عرض محمد بھی ہے، شہید عرض محمد بلوچ مشکے کے علاقے گجلی میں لعل خان کے گھر میں پیدا ہوئے، شہید عرض محمد بلوچ کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا اس لئے وہ غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکا، شہید عرض محمد اپنے بھائی اور بہنوں میں سب سے بڑا تھا، اس لئے گھر کا ذمہ ان پر تھا، وہ کام و روزگار کرتے تھے بھیڑ بکریاں مال مویشی پالتے تھے۔

شہید عرض محمد بلوچ، بلوچ تحریک آزادی کا حصہ تب بنے جب 2000 سے لیکر 2006 کے دوران جب مشکے سے لیکر پورے مکران میں بلوچ قومی جہد آزادی کی ایک نئی لہر اٹھی تھی ، بلوچ قومی جد و جہد اپنے عروج پہ چل رہی تھی، وہ مشکے اور گجلی کے پہاڑوں میں بلوچ سرمچاروں کو مالی امداد فراہم کرتے تھے، شہید عرض محمد بلوچ کا چھوٹا بھائی شہید رمضان بھی اسی دور میں بلوچ مزاحمتی تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کی ،( یاد رہے شہید عرض محمد بلوچ کی دو بھائی شہید ہوئے ہیں شہید رمضان و شہید حبیب بلوچ) وہ مشکے کے پہاڑوں میں بلوچ سرمچاروں کے ساتھ اپنی جہد میں مصروف تھے۔

مشکے ایک ایسی جگہ ہے جہاں سیاسی لیڈرز سے لیکر مزاحمتی لیڈرز تک ہر طرح کی کردار جنم لے چکے ہیں،

شہید عرض محمد بلوچ ایک خوش مزاج اور سچے انسان تھے، جب وطن کی بات ہوتی تو وہ سب کچھ لٹانے کو تیار تھے، پھر جان کیا چیز تھی, اپنے عالیشان گھروں کو چھوڑ کر پہاڑوں میں رہنا وہ ان سب چیزوں سے گذر چکے تھے ان کا فکر و نظریہ کہیں آگے تھا۔ وہ اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے مادر وطن کے لیئے جی رہے تھے۔ انہیں صرف اپنے گھر کی نہیں بلکہ پورے قوم کی پرواہ تھی۔ اس لئے وہ اپنے بھائیوں اور رشتےداروں کے سات اس کارواں میں شامل ہوئے، 2012 کو پاکستان کے فوج کی مشکے کے کئی علاقوں میں آپریشنز چل رہی تھی – اسی دوران 25 دسمبر 2012 کو شہید عرض محمد اپنے ایک ساتھی کے ساتھ سفر پر جارہے تھے کہ اچانک ان کا فوج سے سامنا ہوا دو طرفہ جنگ شروع ہوئی شہید کے ساتھی کے پاس بندوق تھی وہ فوج سے لڑتے لڑتے نکلنے میں کامیاب ہوا لیکن شہید عرض محمد بلوچ کے پاس بندوق نہ تھی وہ گولی لگنے کی وجہ سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوا پر ظالموں کی ہاتھ لگ گیا، دو دن اذیت دینے کے بعد شہید عرض محمد بلوچ کی لاش کو پھینک دیا گیا۔

شہید عرض محمد بلوچ جسمانی طور پر ہم سے بچھڑ گئے لیکن انکا فکر آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں