شہید استاد ثناء بہار – چیدگ بلوچ

522

شہید استاد ثناء بہار

تحریر: چیدگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حب الوطنی فطرت ہے، مگر حب الوطنی کے جذبے کو جنون کی حدود پر استوار کرکے اس پر مستقل رہنا، انسان کی زندہ ضمیری کا ثبوت ہے۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار بلوچ وطن کے فرزندان نے اپنے سرزمین سے ہمیشہ سامراج کا بھوت نکال باہر پھینکا ہے، ہمیشہ ظالم کو بلوچ نوجوانوں کی مزاحمت سے شکست کا سامنا رہا ہے۔

ان بہادر اور منفرد نوجوانوں میں سے شہید استاد ثناء بلوچ عرف استاد امیر ایک ہیں، جس نے کئی محاذوں پر دشمن کیخلاف اہم معرکے سر انجام دیئے ہیں، جب بھی استاد ثناء نے دشمن پر حملہ کیا ہے، دشمن کو منہ کی کھانی پڑی ہے، استاد ثناء کی شہادت بلوچ مزاحمت اور دوستوں کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے مگر استاد ثناء کی شہادت سے ساتھی کمزور نہیں بلکہ دشمن پر شدت سے قہر بن کر ابھریں گے۔

امیر جان! میں پہلی بار آپ کا اصل نام جان پایا ہوں، وہ نام جس کو وطن کی محبت اور اس مقدس جنگ میں حکمت عملیوں کو کامیابی سے سر انجام دینے کیلئے آپ نے چھپایا تھا، یہ نام میرے نظر میں مقدس ناموں میں سے ایک ہے کیونکہ جس نے ہمیں اس عظیم جنگ کی راہ دکھائی وہ شہید سنگت ثناء اور ایک ثناء آپ جو کھٹن ماحول میں ہم جیسے کمزور انسان کیلئے ایک حوصلہ ثابت ہوئے۔

ثناء آپ جس عمر میں ایسی جرات مندی اور بہادری کیساتھ اپنے ساتھیوں کی رہبری کررہے تھے، ان تمام قصوں کی داستان شہیک جان اور اسد محراب کو ضرور سنانا، اسد محراب سے فخریہ کہنا کہ اگر آپ نے 24 گھنٹے تک پی سی ہوٹل پر قابض ہوکر دشمن کو للکارا تھا تو میں نے بھی اپنے ناتواں کندھوں پر آپ کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے کئی محاذوں پر دشمن کے سینوں پر آگ برساتا رہا، شیہک جان سے ضرور کہنا کہ جس مزاحمت کو آپ نے کیچ، آواران اور پنجگور میں منظم کیا آپ کے شاگردوں نے اس مزاحمت کو کمزور ہونے نہیں دیا، آج بھی دوست میرا منتظر ہیں کہ میں آؤں گا ہم مل کر دشمن کیخلاف ایک نئے حملے کی تیاری کریں گے۔

امیر جان! نوتک اور ناکو نثار کو یہ خبر دینا کہ آپ دونوں کے جانے کے بعد آپ کے پڑھائے گئے سبق پر دوست عمل پیرا ہیں اور دشمن کو چین کے سانس نصیب نہیں۔ اسد محراب سے یہ ضرور کہنا کہ آپ کا زامران دشمن کے خلاف آج بھی سراپا مزاحمت ہے، ناکو نثار کو یہ پیغام دینا کہ آپ کا بلیدہ زامران بیدار ہو چکا ہے اور آپ کا فرزند اب جوان ہو چکا ہے، وہ یہ جانتا ہے کہ اس کے بابا نے ایک عظیم مقصد کیلئے اپنی جان دی ہے، نوروز سے یہ کہنا کہ آپ کا گومازی آج بھی دشمن کیلئے مزاحمت کا ایک بھیانک قلعہ ہے۔

پیغام تو بہت ہیں، مگر تمام شہیدوں کو یہ کہنا کہ آپ نے جس مقصد کیلئے قربانی دی، وہ مقصد روز بہ روز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور دشمن کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے، عوام میں شعور برپا ہوچکا ہے، مظالم کیخلاف عوام کا بھر پور غصہ و نفرت دشمن کو دنیا کے سامنے آشکار کررہا ہے۔

ثناء جان! آپ نے دشمن کیخلاف محاذ پر جو بہادری دکھائی ہے، اس سے قوم سمیت تمام دوستوں کے حوصلے مذید بلند ہوئے ہیں، آپ نے ایک عظیم مقصد کیلئے قربانی دی ہے اور آپ کی جدوجہد و نظریہ نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہے، جس پر چل کر وہ دشمن کیخلاف لڑ کر اسے شکست سے دوچار کریں گے اور اپنی سرزمین و قوم کو غلامی سے نجات دلائیں گے اس سے ایک آزاد ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں