سنگت ثناء بلوچ کے نام
تحریر: بابر یوسف
دی بلوچستان پوسٹ
جب فکر اور نظریہ پختہ ہوتا ہے تو انسان شعوری طور پر اپنے زندگی کو اُس سوچ اور نظریہ کے لئے وقف کردیتا ہے جس سے انسان کے وجود کو مقصد مل جاتا ہے اور اُس مقصد کے حصول کے لئے انسان شعوری سطح پر جو فیصلہ کرتاہے وہ ہی اُس نظریہ کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ یہ ایک قومی اور اجتماعی راستہ ہے۔ یہ مفاد پرستوں کی جگہ نہیں ہے یہ ایک بہت سخت اور کٹھن راستہ ہے، اس راستے میں قومی بقاء ہے کوئی مزاق نہیں. یہ قومی نظریہ ہے یہ ایک قومی فکر ہے جب فکر اور نظریہ پختہ ہو تو کوئی سامراجی قوت اُس کو شکست نہیں دے سکتا۔ اس فکر اور نظریے پر ہزاروں نوجوانوں نے خوشی خوشی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس فُکر کو ایک انقلابی تحریک میں بدلنے کے لئے اپنا کردار ادا کیاہے ۔ جو انسان یا قوم شعوری طور پر جو فیصلہ کرتا ہے اس کو منزل تک پہنچا کر کامیابی حاصل کرتا ہے یہ بلوچ قوم کا ایک قومی اور شعوری فیصلہ تھا اس شعوری فیصلے کو مزاحمتی شکل میں منزل تک پہنچانے کے لئے ہزاروں بلوچ نوجوان تیار ہیں ۔
سنگت ثناء بھی ان شعوری نوجوانوں میں سے ایک تھا، جس نے یہ شعوری رستہ اختیار کیا اور اس نظریے کو آ گے لیجانے کے لئے اپنے آپ کو قربان تک کر دیا۔ سنگت ثناء بلوچ ایک سرمچار ساتھی کے ساتھ ساتھ ایک جنگی اُستاد بھی تھے. جس نے ہر میدان میں دشمن کو یہ احساس دلایا کہ بلوچ قوم اپنی سرزمین اور اپنی قوم کی بقاء کے لئے ہر وقت جنگ کے لئے تیار ہے. سنگت ثناء بلوچ کی یہ قربانیاں ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں. شہید سنگت ثناء بلوچ دشمن کے خلاف 24 گھنٹے تک جنگ کرتے ہوئے ایک تاریخ قائم کردی اور وہ شروع سے میرے اُستاد تھے اور آج اپنی انہی گراں قدر قُربانیوں کی وجہ سے اُسے” اُستاد” کا اعزاز تک ملا.
اُستاد، سنگت ایک خوش مزاج اور ہنس مک انسان تھے، جس کے چہرے پر ہر وقت ہنسی اور خوشی تھی اور آخری دیدار میں بھی خوشی خوشی رُخصت ہوگئے. یہ ایک کٹھن راستہ ہے اس راستے میں قومی بقاء ہے اس راستے پر قوم کا مستقبل ہے یہ ایک انقلابی راستہ ہے. ایک انقلاب کو شہیدوں کی اور سخت پر مصائب حالات میں جدوجہد کرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے اس راستے پر ہزاروں نوجوان مستقل کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ اُس انقلاب کی خوبصورتی ہے۔ اس قومی راستے کو ہر بلوچ نوجوان کی ضرورت ہے اور ہر نوجوان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس تحریک میں کردار ادا کریں۔
یہ سفر ہے آجوئی کا یہ سفر ہے وطن کی خوشحالی کا یہ سفر ہے مزاحمت کا اور اُستاد ثناء جیسے لوگ اس سفر اور مزاحمت کی خوبصورتی ہیں۔ یہ مزاحمت کا راستہ ہے یہ مزاحمت کی نشانی ہے۔
پنپرے ، فکرے پختہ گر تینا نم کریرے
ہمتے الیپرے بے حوصلہ مفیرے
جیرت و سگ ئتو نم کل آتو مون تیرے
ہمتے الیپرے بے حوص
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں